10 مئی کے سیز فائر کے بعد یہ طے شدہ امر تھا کہ اب عسکری محاذ خاموش رہے گا جبکہ طبل جنگ سفارت کاری کے میدان میں بجے گا اور پاکستان کو اپنی عسکری فتح کے نتائج سےسفارتکاری کی دنیا کو متاثر کرنا ہو گا۔ پاکستان نے برمحل اپنی سفارتی مہم کا آغاز کر دیا اور یقینی طور پر اس مہم میں اہداف اور انکے حصول کا طریقہ کار بھی وضع کیا گیا ہو گا۔ یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں کہ جب سرتاج عزیز مرحوم وزیر اعظم کے مشیر خارجہ تھے۔ انہوں نے اپنے عرصہ مشاورت میں وزارت خارجہ کی کارکردگی کو جانچنے کیلئے ایک طریقہ کار اختیار کیا تھا۔ ان سے ملاقات بھی ہو جاتی تھی اور انہوں نے میرے سامنے بھی اپنے اس طریقہ کار کا اظہار کیا تھا۔ اگر موجودہ صورتحال میں پاکستان کی سفارتی مہم کی کارکردگی کا جائزہ لینا ہو تو انکے وضع کردہ طریقہ کار سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ طریقہ کار یہ تھا کہ جب وہ اس ذمہ داری پر فائز ہوئے تھے تو اس بات کا جائزہ لیا گیا کہ اس وقت پاکستان سے کسی بھی ملک کے تعلقات کی کیا نوعیت ہے اور اسکی سطح منفی یا مثبت کیسی ہے؟ ان تعلقات میں کس نوعیت کی پیشر فت ممکن ہے؟ اسکے نمبر مقرر کئے گئے۔ پھر بعد میں وزارت خارجہ کی حکمت عملی کے ذریعے ان تعلقات کی حیثیت کیا ہو گئی؟ اور یہ حیثیت منفی ہوئی یا مثبت؟ اب اسکے نمبر کتنے ہیں؟ اس فارمو لے کا انڈیا کی جانب سے کئے گئے حملے کے بعد پاکستان کی طرف سے شروع کی گئی سفارتی مہم پر بھی اطلاق کیا جا سکتا ہے اور اپنی کامیابیوں یا کہیں اگر کمزوری محسوس ہوئی ہو تو اس کا ادراک ممکن ہو گا بلکہ بہت ضروری ہے۔ مثال کے طور پر ’پرفارما‘ اس طرح سے با آسانی ترتیب دیا جا سکتا ہے کہ پہلگام واقعہ سے قبل کشمیر اور اس سے منسلک امور کے حوالے سے عالمی برادری یا یوں کہہ لیجئے کہ دنیا کے اہم ممالک کی پالیسی کیا تھی؟
جب پہلگام کا افسوس ناک واقعہ ہو گیا اور انڈیا نے لمحوں میں پاکستان پر الزام عائد کرنا شروع کر دیا اور پاکستان نے غیر جانبدارانہ تحقیقات کی پیش کش کر دی تو اس تمام وقت میں کتنے ممالک نے پاکستان کی حمایت کی اور کتنے ممالک انڈیا کے ہمنوا تھے جبکہ خاموش کون کون تھا؟ پھر انڈیا طاقت کے زعم میں جب پاکستان پر حملہ کرنے کی سنگین غلطی کر بیٹھا اور اسکو جنگ کی پہلی رات ہی منہ کی کھانا پڑی جبکہ پاکستان کے آپریشن بُنْیَانٌ مَّرْصُوْص کے بعد سیز فائر ہو گیا تو اس سارے ’’زمانے‘‘ میں جو ایک زمانہ بدل گیا دنیا بھر کا رويہ کیسا رہا؟ دنیا اس خطرناک تصادم کو کس نظر سے دیکھ رہی تھی اور کس کے بیانیہ کو تسلیم کر رہی تھی؟ دنیا بھر کے دفاتر خارجہ نے اس صورت حال پر کیا تبصرے کئے؟
اب یہ وقت تو گزر گیا اور جنگ سفارتی میدان میں شروع ہو گئی۔ انڈیا نے بھی اپنی تاریخ کی سب سے بڑی سفارتی مہم کا آغاز کر دیا اور پاکستان بھی دنیا کو سچ سنانے اور حقیقت حال سے مطلع کرنے کیلئے متحرک ہو گیا۔ اصل سوال ہی اب قائم ہوا ہے کہ پاکستان کی سفارتی مہم کے نتائج کے طور پر ہم کتنے ممالک میں نقطہ نظر کی تبدیلی لا سکے ہیں؟
اپنی حمایت میں کس قدر اضافہ ممکن بنا دیا گیا ہے؟ جن افراد سے ملاقاتیں ہماری سفارتی مہم میں کی گئیں ان میں سے کتنے افراد نے ذاتی حیثیت میں گفتگو کرتے ہوئے پاکستان کے مؤقف کی حمایت میں کوئی بیان دیا؟ ان تمام سوالات کے جوابات کو مختلف ممالک اور ان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات، ضروریات کا پس منظر سمجھتے ہوئے ہمیں ضرور تلاش کرنا چاہئے۔ اگر اس نوعیت کی مشق کی جائے تو اس سے خارجہ سطح پر پاکستان کی کارکردگی کو مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ انڈیا نے جو حالات مودی کی قیادت میں قائم کر دیئے ہیں اس میں تو اب سفارتی محاذ پر روز ایک نئی جنگ کا سامنا کرنا پڑے گا تو ہماری تیاری بھی روز کے روز ہوتی رہنی چاہئے۔ پاکستان کو اور دنیا بھر میں پاکستان کا کیس لڑنے والوں کو اس بات میں بہت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ نیوکلیئر پاور ہونے کا ذکر کتنی بار کرنا چاہئے اور بار بار کرنا بھی چاہئے یا نہیں؟ اس لئے کہ نیوکلیئر صورت حال یا تصادم کے خدشے کا بار بار ذکر کرنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان نیوکلیئر پاور کو ایک ٹول کے طور پر استعمال کر رہا اور دوئم یہ کہ پاکستان کی قومی سلامتی کی ضمانت صرف نیوکلیئر پاور ہے۔ ابھی پاکستان نے عسکری محاذ پر جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور انڈیا کو ناکوں چنے چبوائے ہیں وہ تو روایتی "جنگ" تھی یعنی کہ پاکستان کو نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے بلکہ ہم ویسے ہی دشمن پر بھاری ہیں۔ اور جب اس کو ٹول کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو دنیا اس حوالے سے مودی کے رویے کو دیکھتی ہے کہ وہ نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کرنے کی کتنی بار بات کرتے ہیں۔ ہمیں اس حوالے سے بہت محتاط رویہ اختیار کرنا چاہئے تا کہ دنیا پاکستان کو بدستور ذمہ دار نیوکلیئر ریاست تصور کرتی رہے۔