غزہ ، کراچی (اے ایف پی ، نیوز ڈیسک) غزہ میں امدادی مراکز سمیت مختلف علاقوں پر حملوں اور بمباری کے نتیجے میں120فلسطینی شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے ، شہداء کی مجموعی تعداد 55ہزار سے زائد ہوگئی ہے، صرف امدادی مراکز پر ٹینکوں اور کواڈ کاپٹرزسے شیلنگ، ڈرونز سے حملوں اور براہ راست فائرنگ سے میں57فلسطینی شہید اور 363زخمی ہوئے، اقوام متحدہ کی فلسطینی ایجنسی کا کہنا ہے کہ امداد کی تقسیم کا امریکی واسرائیلی ماڈل زندگیوں کو خطرات میں ڈال رہا ہے ، امریکا نے فلسطین کے دو ریاستی حل پر اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شرکت کرنے والےممالک کو سنگین سفارتی نتائج کی دھمکی دی ہے اور کہا ہے کہ اسے امریکی خارجہ پالیسی کیخلاف سمجھا جائے گا، مصر کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی کارکنوں کو غزہ کے سرحدی علاقے کا دورہ کرنے کے لئے پہلے سے منظوری حاصل کرنی ہوگی،اسرائیل کے وزیر دفاع نے بدھ کے روز مصر سے مطالبہ کیا کہ وہ سیکڑوں فلسطینی حامی کارکنوں کے قافلے کو غزہ پہنچنے سے روکے،اسرائیلی وزیر اور مصر کے بیانات ایسے وقت پر سامنے آئے ہیں جب الجزائر اور تیونس سے امدادی کارکنوں کا قافلہ غزہ جانے کیلئے لیبیا کے بعد مصر میں داخل ہونے والا ہے، حماس نے غزہ میں ایک اسرائیلی فوجی کو ہلاک اور دوسرے کو زخمی کرنے کا بتایا ہے جبکہ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ حماس کیساتھ لڑائی میں اس کے دو فوجی زخمی ہوگئے ہیں ۔ تفصیلات کے مطابق اسرائیلی فورسز اور امریکی کانٹریکٹرز نے ایک بار پھر امدادی مراکز پر جمع ہونے والے فلسطینیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ ، ٹینکوں اورکواڈ کاپٹرز سے شیلنگ کردی جس کے نتیجے میں امداد کے متلاشی مزید 57فلسطینی شہید اور 363زخمی ہوگئے، فلسطینی محکمہ صحت کے مطابق حالیہ دنوں میں امدادی تقسیم کے مراکز پر شہید ہونے والوں کی کل تعداد 224 اور زخمیوں کی تعداد 1,858 ہو گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کے لئے امدادی ایجنسی (UNRWA) نےایک بیان میں امداد کی تقسیم کے امریکی و اسرائیلی ماڈل کو "جاری مظالم سے توجہ ہٹانے اور وسائل کا ضیاع" قرار دیا ہے۔ان کے مطابق یہ فلسطینیوں کی زندگیوں کو خطرات میں ڈال رہا ہے ۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ممالک کو دو ریاستی حل پر اقوام متحدہ کی کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی دھمکی دی ہے۔10 جون کو بھیجی گئی ایک کیبل کا حوالہ دیتے ہوئے، برطانوی نیوز ایجنسی نے رپورٹ کیا کہ واشنگٹن نے کہا ہے کہ آئندہ ہفتے ہونے والی کانفرنس کے بعد جو ممالک "اسرائیل مخالف اقدامات" کریں گے، انہیں امریکی خارجہ پالیسی کے مفادات کے خلاف کام کرنے والا سمجھا جائے گا اور انہیں سفارتی نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔