انصار عباسی
اسلام آباد :…مالی کفایت شعاری کے اپنے ہی دعوؤں کی نفی کرتے ہوئے، شہباز شریف حکومت نے ارکان پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات میں غیر معمولی اضافہ کی منظوری دے دی ہے۔ یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب اسی حکومت نے محض دو سال قبل (دورِ حکومت 2022-23ء) میں وزراء، قانون سازوں اور حتیٰ کہ ججز کی تنخواہوں و مراعات میں کٹوتی کی تجاویز دی تھیں، تاکہ عوامی خزانے پر پڑنے والے غیر ضروری بوجھ کو کم کیا جا سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف ہی تھے جنہوں نے قومی کفایت شعاری کمیٹی (این اے سی) قائم کی تھی۔ اسی کمیٹی نے اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججوں کی بڑھتی پنشن کا بوجھ دیکھ کر پنشن کی حد 5؍ لاکھ روپے ماہانہ مقرر کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم، ان سفارشات پر عملدرآمد کی ذمہ داری سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر چھوڑ دی گئی تھی۔ اب اسی حکومت نے قومی اسمبلی کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر اور سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین کی تنخواہوں میں پانچ گنا اضافہ تجویز کر کے پالیسی میں مکمل یوٹرن لے لیا ہے۔ تقریباً ایک ماہ قبل، حکومت نے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے وفاقی وزراء، مملکتی وزراء اور مشیروں کی تنخواہوں میں 188؍ فیصد اضافہ کر دیا تھا، جس کا اطلاق یکم جنوری 2025ء سے ہوگا۔ ’’وفاقی وزراء و وزرائے مملکت کی تنخواہ و مراعات ترمیمی آرڈیننس 2025ء‘‘ کے مطابق اب ان وزراء کی نئی تنخواہ 5؍ لاکھ 19؍ ہزار روپے ماہانہ مقرر کی گئی ہے۔ رواں سال جنوری میں، قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے بھی اراکین اسمبلی و سینیٹرز کی تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی تھی، جو اب 5؍ لاکھ 19؍ ہزار روپے ماہانہ ہو چکی ہے، اس کا اطلاق بھی یکم جنوری 2025 سے تصور کیا جائے گا۔ حکومتی اور اپوزیشن بنچوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر تنخواہوں میں 300؍ فیصد اضافے کی متفقہ منظوری دی۔ جب اس فیصلے پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا تو تحریک انصاف کے بعض رہنما اس فیصلے سے لاتعلقی ظاہر کرتے نظر آئے۔ گزشتہ برس حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تنخواہوں کو دگنا کیا، اور ان کی پنشن و دیگر مراعات میں بھی نمایاں اضافہ کیا۔ جہاں ایک وقت میں ریٹائرڈ ججز کو تقریباً 10؍ لاکھ روپے ماہانہ پنشن ملتی تھی، وہیں اب انہیں 15؍ لاکھ روپے سے زائد دیئے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں، ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والی دیگر مراعات بھی برقرار ہیں۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد، سپریم کورٹ کے ججوں کا ہاؤس رینٹ 68؍ ہزار سے بڑھا کر 3؍ لاکھ 50؍ ہزار روپے کر دیا گیا ہے، جبکہ ان کا عدالتی الاؤنس 4؍ لاکھ 28؍ ہزار 40؍ روپے سے بڑھ کر 11؍ لاکھ 61؍ ہزار 163؍ روپے کر دیا گیا۔ اسی طرح، ہائیکورٹ کے ججوں کا ہاؤس رینٹ بھی 65؍ ہزار سے بڑھا کر 3؍ لاکھ 50؍ ہزار روپے اور عدالتی الاؤنس 3؍ لاکھ 42؍ ہزار 431؍ سے بڑھا کر 10؍ لاکھ 90؍ ہزار روپے کر دیا گیا۔ یہ تمام اضافے براہ راست پنشن پر اثر انداز ہو رہے ہیں، جس کی بدولت اعلیٰ عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز اب 15؍ لاکھ روپے سے زائد ماہانہ وصول کر رہے ہیں۔ یہ وہی ججز ہیں جن کیلئے چند سال قبل کفایت شعاری کی سفارشات پیش کی گئی تھیں۔ شہباز شریف کی گزشتہ حکومت کے دوران قومی کفایت شعاری کمیٹی نے تمام قانون سازوں (ارکان قومی اسمبلی، سینیٹرز اور ارکان صوبائی اسمبلی) کی تنخواہوں و الاؤنسز میں 15؍ فیصد کمی کی سفارش کی تھی، لیکن اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ کمیٹی نے یہ سفارش بھی کی تھی کہ اراکین پارلیمنٹ کو ترقیاتی منصوبے تجویز کرنے کا اختیار اور نظام ختم کیا جائے۔ یہ وہ نظام ہے جو 1985ء سے رائج ہے اور جس کے ذریعے ارکان قومی و صوبائی اسمبلیز اور سینیٹرز عوامی فنڈز پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ یہ سفارش بھی نظر انداز کر دی گئی اور موجودہ بجٹ میں بھی اراکین پارلیمنٹ کیلئے ترقیاتی اسکیموں کی مد میں کئی ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہو رہا ہے جب پاکستان معاشی مشکلات، قرضوں کے بوجھ اور کفایت شعاری کی باتوں کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس طرح کے اقدامات حکومت کی ذمہ دارانہ گورننس پر سوالیہ نشان ہیں۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے حکومت کی کفایت شعاری مہم سے وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس پالیسی سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے حالیہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں واضح طور پر ہدایت دی کہ اخراجات میں کمی کے موجودہ اقدامات کو جاری رکھا جائے۔ عطاء تارڑ نے بتایا کہ وزیراعظم نے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں میں مجوزہ اضافے کا نوٹس لے لیا ہے اور عوام کو یقین دہانی کرائی ہے کہ ان تجاویز کی منظوری نہیں دی جائے گی بلکہ انہیں کم کر دیا جائے گا۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ وفاقی وزراء (جن میں سے اکثریت تنخواہ نہیں لے رہی) کی تنخواہیں صرف اراکین پارلیمنٹ کے برابر کی گئی ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں چند ماہ قبل، موجودہ مالی سال کے دوران اضافہ کیا گیا تھا۔ یہ کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں بلکہ ایسا فیصلہ ہے جس سے وہ اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کر سکیں۔ کافی عرصے سے تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا تھا اور یہ فیصلہ ارکان پارلیمنٹ کی حقیقی مالی مشکلات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کیا۔