• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

یہ وہ لاہورہے جہاں پر مغل شہزادے اور شہزادیاں ہوا خوری اور جب ان کی طبیعت خراب ہوتی تو لاہور آ جایا کرتے تھے۔ کامران کی بارہ دری میں کئی مغل شہزادے آکر ٹھہرا کرتے تھے آج تو لاہور شہر میں آپ ایک چکر لگا کر آ جائیں سفید شرٹ پیلی ہو چکی ہو گی۔ خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں جب 1849ء میں انگریز بہادر نے لاہور کو اپنے زیر نگیں کیا تو انگریز بہادر نے شاہی قلعہ کو اپنا مسکن بنایا تھاگورا فوج کو اپنی پریڈ اور دیگر فوجی سرگرمیوں کےلئے ایک کھلے میدان کی ضرورت تھی چنانچہ قلعہ کے سامنے وسیع میدان کو پریڈ گرائونڈ کا نام دیا گیا اور انگریز بہادر نے وہاں پر روزانہ پریڈ شروع کر دی بلکہ اس کو ڈرل کہیں تو زیادہ مناسب ہو گا۔کبھی لاہور کے اسکولوں میں ڈرل کا پیریڈ بھی ہوا کرتا تھا اور بچے ڈرل کیا کرتے تھے پنجاب کے وزیر تعلیم رانا سکندر حیات ویسے تو بہت دعوے کرتے ہیں مگر اسکولوں کی عملاً حالت کوئی بہتر نہیں ہوئی ۔ہمارے نزدیک کسی بھی اعلیٰ افسر یا وزیر یا وزیر اعلیٰ یا سینئر وزیر کا چھاپہ مارنا اس بات کی دلیل ہے کہ سسٹم صحیح نہیں چل رہا ۔انگریز بہادر کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کتنے انگریز اعلیٰ افسروں نے چھاپے مارے۔ سسٹم کی کامیابی یہ ہوتی ہے کہ آپ کا اتنا رعب اور دبدبہ ہو کہ لوگ خود بخود ہر کام اچھے انداز میں کرتے رہیں اور لوگوں کو کوئی تکلیف نہ ہو اس وقت لاہور کے ڈی آئی جی کامران فیصل جس طرح پولیس نظام کو ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے ہیں وہ قابل ستائش ہے۔آج پورے ملک میں کونسا ادارہ ہے جو صحیح سمت میں چل رہا ہو اور عوام کو سہولیات دے رہا ہو۔

منٹو پارک لارڈ منٹو کے نام پر ہے ان کا پورا نام گلبرٹ ایلیٹ مرےکنائنمائونڈ منٹو تھا جو 1807ء 1813ء تک برصغیر میں اہم عہدے پر رہے تھے مغل دور میں شاہی قلعہ کے ساتھ راوی بہتا ہوتا تھا جب راوی نے اپنا راستہ تبدیل کیا تو اس کی پرانی گزرگاہ بڈھا راوی بن گئی اور ایک مدت تک اس میں بھی پانی چلتا رہا ہم ان خوش قسمت لاہوریوں میں سے ہیں جنہوں نے بڈھا راوی میں پانی اور لوگوں کو کشتی چلاتے دیکھا ہے بعد میں بڈھا راوی گندا نالہ بن گیا تھا اور پھر اس بڈھا راوی کے نزدیک مینار پاکستان بنایا گیا۔بڈھا دریا پر ایک اونچا سا پل ہوا کرتا تھا جو بعد میں گرا دیا گیا تھا ہم نے اس پل پر بہت موٹر سائیکل چلائی ہے اسی طرح راوی پر کسی زمانے میں کشتیوں کے پل پر بھی ہم نے موٹر سائیکل چلائی ہوئی ہے یہ پل 1967ء میں بنایا گیا تھا۔ شروع میں لوگ اسے یادگار پاکستان کہتے تھے جو کہ غلط تھا بلکہ بس اسٹاپ کا نام بھی یادگار تھا انگریزوں نے اس کھلے میدان میں ایک کرکٹ پویلین بنایا تھا اس پویلین کا رنگ پیلا تھا اور یہ جگہ پیلی کوٹھی کے نام سے مشہور ہو گئی اس پیلی کوٹھی کے سامنے تین کرکٹ گرائونڈز بنائے گئے تھے اس زمانے میں وہاں ہاکی اور فٹ بال کے میدان بھی تھے ۔1910ء میں پریڈ گرائونڈ کا نام تبدیل کرکے اسے منٹوپارک کا نام دے دیا گیا۔ اس تاریخی پارک میں پاکستان کے کئی نامور کرکٹرز نے کرکٹ کھیلی ہے فضل محمود( جن کو ملکہ الزبتھ نے کہا تھا کہ آپ کی آنکھیں نیلی کیوں ہیں؟اور آپ تو اس خطے کے نہیں لگتے یہ پہلے کرکٹ کے کھلاڑی تھے جو مختلف اشتہارات میں آتے تھے انتہائی خوبصورت انسان تھے ہمیں یہ اعزاز ہے کہ ہم نے ان کا انٹرویو جنگ کے لئے کیا تھا (آخری عمر میں بیوی کو طلاق دے کر سارا وقت حضرت علی ہجویریؒ ؒکے مزار مبارک پر بیٹھے رہتے تھے )محمد نثار، ڈاکٹر دلاور حسین، لالہ امرناتھ ،امیر بروہی، گل محمد، نذر محمد، عبدالحفیظ کاردار، امتیاز احمد، مقصود احمد، خان محمد، ذوالفقار احمد اور کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عمران خان بھی یہاں کھیلتے رہے ہیں ہماری اطلاع کے مطابق عمران خان اور ماجد خان نے زیادہ تر کرکٹ کی پریکٹس زمان پارک کے گول گرائونڈ میں کی ہے جو آج بھی موجود ہے اس کے علاوہ مدثرنذر، سعید احمد، سلیم الطاف، شفقت رانا ،سرفراز نواز، عامر سہیل ، سلیم ملک ،محمد الیاس اور کئی دیگر کرکٹ کے کھلاڑ ی اس منٹوپارک سے بنے ہیں۔

1978ءمیں لالہ امرناتھ جب بھارتی ٹیم کے ساتھ لاہور آئے تو وہ خصوصی طور پر منٹوپارک گئے اور وہاں انہوں نے کریسنٹ کرکٹ کلب کے کھلاڑیوں کے ساتھ بہت وقت گزارا کریسنٹ کلب میں وہ قیام پاکستان سے قبل کھیلتے رہے ہیں کبھی منٹوپارک کے اکھاڑے میں گونگا پہلوان، گاما پہلوان اور امام بخش جیسے نامور پہلوانوں کی کشتیاں ہوتی رہی ہیںہم نے بھی اس اکھاڑے کو دیکھا ہوا ہے اور اس اکھاڑے کے ساتھ بیڈمنٹن کا کورٹ تھا جہاں پر ہم بیڈمنٹن کھیلا کرتے تھے ۔ اس منٹوپارک میں دسہرہ کا میلہ بھی کبھی ہوا کرتا تھا منٹوپارک (اقبال پارک) کو لاہور میں کرکٹ کی نرسری بھی کہا جاتا تھا اس کے قریب مختلف کرکٹ کلبوں نے کبھی یہاں پر خوب رونق لگائے رکھی تھی منٹوپارک میں کبھی آل انڈیا نمائش اور میلہ بھی لگا کرتا تھا ۔1964ء میں آخری بار یہاں پر آل انڈیا نمائش ہوئی تھی اس نمائش میں پہلی مرتبہ ٹیلی ویژن کو متعارف کرایا گیا تھا ایک اسٹوڈیو بنایا گیا تھا اور اس کے باہر ایک لمبا سا ٹیلی ویژن سیٹ رکھا گیا تھا ہم نے وہ نمائش دیکھی ہوئی ہے اور پہلی بار وہاں اس ٹیلی ویژن کو دیکھ کر بڑے حیران ہوئے تھے۔ہم بھی اس کیمرے کے سامنے گئے تھے اور ہماری تصویر بہت بڑے ٹی وی سیٹ پر آئی تھی ۔ پرانے لاہوریئے جانتے ہیں کہ کبھی منٹوپارک میں گلی ڈنڈا اور تیر اندازی کے مقابلے بھی ہواکرتے تھے نمائشوں اور میلوں کا ایک لمبا سلسلہ یہاں جاری رہا اس پارک میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی پاکستان کے کئی نامور سیاست دانوں نے یہاں بہت بڑے بڑے جلسے بھی کئے ہیں ۔

منٹو پارک (اقبال پارک) کا شمار لاہور کےان تاریخی پارکوں میں ہوتا ہے جہاں پر تحریک پاکستان کےکئی نامور رہنمائوں نے جلسے کئے اور خطاب کیا۔ ضرورت تو اس امر کی تھی کہ پارک کے کسی ایک حصے میں ایک کارنر بنایا جاتا جہاں پر منٹو پارک کی تاریخ اور یہاں پر آنے والے تمام نامور رہنمائوں کے نام اور تصاویر ہوتیں۔ 23مارچ 1940ء کے تاریخی جلسے کی بھی تصاویر اور یہاں پر جن رہنمائوں نے خطاب کیا ان کی تصاویر کے ساتھ اہم باتیں درج ہوتیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمیں مجموعی قوم لکھنے پڑھنے سے کوئی د لچسپی نہیں ایک تو ہماری قوم کے لوگوں کی نالج بہت کمزور ہے دوسرے وہ اپنے علم میں اضافہ بھی نہیں کرنا چاہتے۔ (جاری ہے)

تازہ ترین