لاہور ( آصف محمود بٹ )پنجاب حکومت نے بوائلرز اینڈ پریشر ویسلز آرڈیننس 2002ء میں اہم اور جامع ترامیم کا فیصلہ کیا ہے، جنہیں بوائلرز اینڈ پریشر ویسلز (ترمیمی) ایکٹ 2025ء کے عنوان سے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔ مجوزہ ترامیم کا مقصد صنعتی حفاظتی ضوابط کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا، حادثات کی نگرانی کو مؤثر بنانا، اور ماحولیاتی تحفظ کے قومی و صوبائی عزائم کو تقویت دینا ہے۔ معتبر ذرائع نے ’’جنگ‘‘ کو بتایا کہ اس قانون کی منظوری کے فوری بعد اسے نافذ العمل کر دیا جائے گا۔مجوزہ ترامیم کے تحت صنعتی بوائلرز میں استعمال ہونے والے ایندھن پر سخت پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔ سیکشن 6 میں شامل نئی شق کے تحت ایسے تمام مادے جو ماحولیاتی معیار کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہوں کے استعمال پر مکمل پابندی ہو گی۔ اس اقدام کا مقصد خطرناک اخراجات پر قابو پانا اور پنجاب خصوصاً لاہور جیسے بڑے شہروں میں اسموگ کے بحران سے نمٹنا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ ترامیم فضائی آلودگی کے خلاف صوبے کی جامع حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔انتظامی ڈھانچے کو مؤثر بنانے کے لیے ترمیم کرکے ایڈیشنل چیف انسپکٹر کے عہدے کو پہلی بار قانون کا حصہ بنایا گیا ہے۔ سیکشن 2 اور 5 میں ترامیم کے ذریعے اس نئے عہدے کو واضح کیا گیا ہے، جبکہ تقرری کے اختیارات وزیر اعلیٰ اور متعلقہ محکمے کے انتظامی سیکریٹری کو منتقل کیے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹوریٹ جنرل آف انڈسٹریز، پرائس، ویٹ اینڈ میژرز پنجاب کے کردار کو بھی باقاعدہ طور پر قانونی شکل دی جا رہی ہے تاکہ نفاذ، نگرانی اور حادثاتی کارروائی کے نظام کو تقویت ملے۔قانون میں سب سے نمایاں تبدیلی سیکشن 16 کی مکمل تجدید ہے جس کے تحت بوائلرز اور پریشر ویسلز کے کسی بھی حادثے کی فوری رپورٹنگ، انسپکٹر کی جانب سے موقع پر معائنہ، اور 24 گھنٹوں کے اندر ابتدائی رپورٹ جمع کرانے کی سختی سے ہدایت دی گئی ہے۔ اگر ضرورت محسوس ہو تو ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جا سکتی ہے جو حادثے کی وجوہات کا جائزہ لے گی، ذمہ داران کے خلاف تادیبی یا فوجداری کارروائی کی سفارش کرے گی اور مستقبل میں حادثات سے بچاؤ کے لیے اقدامات تجویز کرے گی۔ کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ متعلقہ افراد کے سرٹیفکیٹس معطل کرنے یا ایف آئی آر درج کرنے کی سفارش کر سکے، اور قانون کے مطابق ہر اس فرد کو جو واقعے سے متعلق معلومات رکھتا ہو، اس کمیٹی کے ساتھ مکمل تعاون کا پابند بنایا گیا ہے۔سیکشن 12 میں ترمیم کرکے "انشورنس کمپنی" کی اصطلاح کو ختم کر کے "انسپیکشن اتھارٹی" کا اندراج کیا گیا ہے، تاکہ تکنیکی نگرانی کے نظام کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی سیکشن 25 میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق ماحولیات کے محکمے سے تعلق رکھنے والے کم از کم گریڈ 18کے ماہر افسر کو بورڈ میں شامل کیا جائے گا تاکہ بوائلرز سے متعلق فیصلوں میں ماحولیاتی پہلو بھی شامل رہے۔قانون میں کئی دیگر تکنیکی اور انتظامی ترامیم بھی شامل ہیں۔ سیکشن 2 میں اصطلاحات کو وضاحت سے بیان کیا گیا ہے، جبکہ سیکشن 7 میں اس بات کی پابندی شامل کی گئی ہے کہ چیف انسپکٹر کو معائنہ رپورٹ موصول ہونے کے تین یوم کے اندر بوائلر کی منظوری یا مستردگی کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ سیکشن 29 میں حادثاتی تحقیقات کے نظام کو آسان بنایا گیا ہے، جبکہ سیکشن 26 کو غیر ضروری قرار دے کر حذف کر دیا گیا ہے اور سیکشن 27 میں اس کا حوالہ بھی ختم کیا گیا ہے۔ سیکشن 11 میں یہ وضاحت شامل کی گئی ہے کہ قانون کی تمام مادی اور طرزِ عمل سے متعلق دفعات پر مکمل عملدرآمد ضروری ہو گا، اور سیکشن 5 کو موجودہ تقرری کے نظام اور معائنہ ڈھانچے کے مطابق تبدیل کیا گیا ہے۔پنجاب حکومت کے مطابق یہ ترامیم صنعتی تحفظ، ماحولیاتی ذمہ داری، اور انتظامی شفافیت کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ ان اصلاحات کو صرف ریگولیٹری نہیں بلکہ احتیاطی اور حفاظتی نوعیت کی بھی قرار دیا گیا ہے جن کا مقصد صنعتی خطرات کو کم کرنا، پائیدار سرگرمیوں کو فروغ دینا، اور حادثات کی صورت میں بروقت اور مؤثر کارروائی کو یقینی بنانا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ قانون صنعتی شعبے، معائنہ کرنے والے اداروں، اور ریگولیٹری اداروں کے لیے دور رس نتائج کا حامل ہو گا۔ ایک بار نافذ ہونے کے بعد، بوائلر آپریٹرز پر لازم ہوگا کہ وہ ماحولیاتی ضوابط کی مکمل پاسداری کریں، سازوسامان کی حفاظت یقینی بنائیں، اور کسی بھی حادثے کی صورت میں فوری طور پر شفاف طریقے سے کارروائی کریں۔ حکومتی حلقے ان ترامیم کو صنعتی ضابطہ کاری کی ایک ناگزیر اور جدید شکل قرار دے رہے ہیں جو ماحولیاتی و حفاظتی چیلنجز سے مؤثر انداز میں نمٹنے میں مدد دے گی۔