• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل نے رعونت اور تکبر کیساتھ رات کے تین بجے ایران پر حملوں کا آغاز کیا، اس آپریشن کو دیکھ کر صاف پتہ چل رہا تھا کہ یہ انٹلیجنس بیسڈ آپریشن ہے کیونکہ اس میں ایران کے کچھ سائنسدان اور عسکری قیادت کے اعلیٰ ترین عہدیدار شہید ہوگئے، اس حملے میں دو سو سے زائد اسرائیلی طیاروں نے حصہ لیا اور سو ٹھکانوں پر حملہ کیا، اب اسرائیلی مطمئن ہو چکے تھے کہ ہم نے ایران کی جنگی صلاحیت ختم کر کے رکھ دی ہے۔ جب یہ سب کچھ ہو چکا تھا تو دنیا میں یہ سوال اٹھنے لگے کہ چونکہ اسرائیل اور ایران کے مابین قریباً دو ہزار کلومیٹر کا فاصلہ ہے، آخر اسرائیلی جہازوں کی ری فیولنگ کہاں ہوئی؟ پھر یہ کہانی کھل گئی اور اس میں اردن اور شام ملوث پائے گئے، عراقی سرزمین بھی استعمال ہوئی۔ اب یہ سوال پیدا ہوا آخر مذمت کرنے والے عرب ملکوں کے ایئر ڈیفنس سسٹم نے الرٹ جاری کیوں نہیں کیا؟ امریکیوں کو ان حملوں کا پہلے سے علم تھا۔ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ عرب ملکوں کو بھی ان حملوں کا علم تھا۔ ایرانیوں کے لئے بھی یہ سوال اہم تھا آخر انٹیلجنس شیئرنگ کہاں سے ہوئی؟ بالآخر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ را نے موساد کے ساتھ انٹیلجنس شیئرنگ کی ہے، اسکے بعد 73افراد کو گرفتار کیا گیا، جن میں 60سے زیادہ ہندوستانی ہیں۔ دنیا جنگی سوالات میں الجھی ہوئی تھی کہ اس دوران ایرانیوں نے اپنے عظیم شہدا کی تدفین کے بعد اپنے مقدس ترین مقامات پر سرخ پرچم لہرا دیئے، سرخ پرچم لہرانے کا مطلب یہ ہے کہ جنگ ابھی جاری ہے، ہم ظالم کے خلاف لڑیں گے۔ اگلی رات ایرانیوں نے اسرائیل پر میزائلوں کی بارش کی، اس بارش نے دنیا کو مزید حیران کر دیا کہ یہ کیسے ہو گیا؟ نیتن یاہو نے اپنی عسکری قیادت کے ساتھ کسی بنکر میں میٹنگ کی تو اسرائیلی فوجی قیادت حیران تھی کہ جب ہم نے ایران کی جنگی صلاحیت تباہ کر دی تھی تو پھر یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟ کس طرح آٹھ گھنٹوں کے اندر ایران کا ائر ڈیفنس سسٹم بحال ہوا اور یہ میزائل کس نوعیت کے ہیں جو دنیا کے سات بہترین ائر ڈیفنس سسٹمز کو چیرتے ہوئے تل ابیب پر گر رہے ہیں؟ واضح رہے کہ ان نظاموں میں امریکن ائر ڈیفنس سسٹم، برطانوی اور فرانسیسی ائر ڈیفنس سسٹم کے علاوہ اسرائیل کے چار ائر ڈیفنس سسٹم شامل تھے۔ اسرائیلیوں کا ایرو تھری، ایرو ٹو، ڈیوڈ سلنگ اور آئرن ڈوم سسٹم بھی شامل تھا۔ اسرائیلی فوجی قیادت نے کئی ملکوں پر شک کا اظہار کیا کہ انہوں نے ایران کی مدد کی ہے، اسی لئے کسی نا معلوم ملک کا نام گردش کرتا رہا کہ اسرائیلیوں کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ کسی تیسرے ملک کی مداخلت کے بغیر ممکن ہی نہیں کہ ایران اس قدر طاقت دکھا سکے۔جنگ ابھی جاری ہے اور اسرائیل کی پریشانی میں اضافہ ہو چکا ہے۔ اسرائیلی فوج کو لمبی جنگ لڑنے کی عادت نہیں، وہ مختصر جنگ کے حامی ہیں، اسی طرح جیسے کسی علاقے کا بد معاش شہر کے کسی چوک میں چار بندے کھڑکا کے آ جاتا ہے اور دوسری گلی میں دو چار عورتوں اور بچوں کو مار کے آ جاتا ہے، اسرائیل کی یہی صورتحال رہی ہے، پچھلے کئی سالوں سے اسے روکنے والا کوئی سامنے نہ آ سکا، پہلی مرتبہ جنگ پانچویں روز میں داخل ہو گئی ہے اور اسرائیلی پریشان ہیں کہ اب جان کیسے چھڑوائی جائے کیونکہ ہر رات حیفا، یروشلم اور تل ابیب پر میزائل برستے ہیں۔ امریکہ نے اپنا دفاعی نظام یوکرین سے مشرق وسطیٰ میں منتقل کر دیا ہے، جرمنی، فرانس اور برطانیہ اسرائیل کی مدد کو پہنچ چکے ہیں۔

امریکی صدر کہہ رہے ہیں کہ اگر ضروری ہوا تو اسرائیل کا ساتھ دیں گے، دھمکیوں اور بڑھکوں کے باوجود امریکی صدر یہ کہہ رہے ہیں کہ اب ایران اور اسرائیل میں جنگ بندی ہونی چاہئے، امن کا معاہدہ ہونا چاہئے۔ یہ وہی صورتحال ہے جو پاک بھارت جنگ میں پیش آئی تھی، بھارت جب تک حاوی نظر آ رہا تھا امریکی کہہ رہے تھے کہ ہمارا اس جنگ سے کیا لینا دینا، آپس میں طے کریں، تحمل کا مظاہرہ کریں مگر جونہی پاکستان نے انڈیا کو شکست دیتے ہوئے بے بس کیا تو امریکی کود پڑے کہ جنگ بندی ہونی چاہئے، جس طرح مودی رو رہا تھا، اسی طرح نیتن یاہو رو رہا ہے، امریکیوں سے کہہ رہا ہے کہ جنگ بندی کروائیں مگر اب ایران نہیں مان رہا۔ ایرانیوں کا کہنا ہے کہ جنگ کا آغاز اسرائیل نے کیا تھا، اختتام ہم کریں گے۔

اگلے دو تین روز بہت اہم ہیں، جس میں ایران بہت کچھ کرنے والا ہے، اسرائیل کی چاروں بندر گاہیں اور تینوں ائر پورٹس ایرانیوں کے نشانے پر ہیں۔ اب شاید اسرائیل کے اندر زمینی چھاتہ بردار داخل ہونے والے ہیں، جو بنکروں میں چھپے ہوئے یہودیوں کی موت کا سامان لئےپھر رہے ہیں۔ دیوار گریہ کے پاس کھڑے یہودیوں کو دیکھ کر احمد فراز کا شعر یاد آتا ہے کہ

کس طرف کو چلتی ہے اب ہوا، نہیں معلوم

ہاتھ اٹھا لئے سب نے اور دعا نہیں معلوم

تازہ ترین