• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب کیبنٹ مشن پلان کو مسلم لیگ اور کانگریس نے قبول کر لیا مگر اسکے بعد نہرو نے اس پلان کو من مانے معنیٰ پہنانا شروع کر دیئے تو اس پلان کو من و عن نافذ کرنے کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کیلئے قائد اعظم نے برطانیہ کا سفر کیا، خیال رہے کہ کانگریس کی جانب سے پنڈت نہرو بھی ساتھ ہی برطانیہ روانہ ہوئے تھے مگر نہرو یا کانگریس جو بھی کہہ لیجئے کی ہٹ دھرمی کیوجہ سے یہ دورہ بھی ناکام ہو گیا تو وطن واپسی پر قائد اعظم نے مصر میں قیام کا فیصلہ کیا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب مصر ہو یا برطانوی ہند اپنی آزادی کی جانب گامزن تھے۔ مصر میں شاہ فاروق کی حکومت سے اینگلو مصری معاہدہ کیا جا رہا تھا اور قائد اعظم کی نظریں یہ اچھی طرح سے دیکھ رہی تھیں کہ چاہے برطانوی ہند ہو یا مصر، اس وقت جو بھی فیصلہ کیا گیا، جس بھی معاہدے کے پابند ہو گئے اسکے اثرات صرف اس ملک تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ تمام عالم اسلام اسکے اثرات کے تحت اپنے آنیوالے ماہ و سال کو گزارے گا۔ قائد اعظم نے مصر کے وزیر اعظم نقراشی پاشا کو تحریری طور پر وہ شرائط دیں جو کہ مصر کو ہر صورت تسلیم کرانی چاہئے تھیں۔ وزیر اعظم مصر قائد اعظم کی یہ تحریر لے کر مصر کے بادشاہ شاہ فاروق کے پاس گئے اور اسی سہ پہر دوبارہ شاہ فاروق کے خط کے ساتھ قائد اعظم سے ملاقات کیلئے آ گئے۔ قائد اعظم نے اس وقت ہی مصر کے بادشاہ کے خط کا جواب تحریر کر دیا کیوں کہ قائد اعظم نے قاہرہ صرف تین روز ٹھہرنا تھا اس لئے جواب میں تاخیر ممکن نہیں تھی۔ اس دورے کے دوران قائد اعظم نے پاکستان کے قائم ہونے کی ضرورت کے حوالے سے اسٹرٹیجک وجوہات کا ذکر کیا۔19 دسمبر1946 کو لبرل انسٹی ٹیوشنل پارٹی مصر نے قائد اعظم کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ اس دعوت میں قائد اعظم نے فرمایا کہ’’اگر آپ اپنے گھروں میں آزاد رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو چاہئے کہ آپ ہماری امداد کریں‘‘ قائد اعظم نے مزید فرمایا کہ ایسی کوئی مسلمان یا عرب ریاست نہیں جسے صحیح معنوں میں آزاد کہا جا سکتا ہو۔ بلکہ یہ کہ ایران جو صدیوں سے آزاد رہ چکا ہے اب اپنی آزادی کھو چکا ہے۔ بنابريں میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ مصر اور مشرق وسطیٰ کے دیگر اسلامی ممالک کے مسلمان مسلمانان ہند کے حصول پاکستان کے مقصد میں امداد و اعانت کریں۔ اسی دورے کے دوران اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے قائد اعظم نے فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ مصر کے مسلمان یہ سمجھ لیں کہ ہمارا پاکستان حاصل کر لینا خود مصر کیلئے کس قدر مفید ہو گا، صرف پاکستان مل جانے کی صورت میں ہم یعنی ہندوستان اور مصر کے مسلمان قطعی طور پر آزاد ہو سکیں گے ورنہ ہندو سرمایہ داروں کی دراز دستیاں مشرق وسطیٰ تک پہنچ جائیں گی۔ اینگلو امریکن کمیٹی نے فلسطين کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی تھی اس پر قائد اعظم نے یکم مئی 1946ء کو ایک بیان جاری کیا۔ قائد اعظم نے فرمایا کہ’’اینگلو امریکن کمیٹی نے فلسطین پر جو رپورٹ شائع کی ہے، میں اس پر صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ ان وعدوں کی سراسر خلاف ورزی اور حد درجہ بد عہدی ہے جو عربوں سے کئے گئے تھے اسکو دیکھ کر مجھے بڑا صدمہ پہنچا، یہ شرانگیز سفارشات جن کو روبہ عمل لانے کی کوشش کی جارہی ہے انکوعرب اور مسلمانان عالم ہر گز قبول نہ کریں‘‘۔ قیادت کا حق صرف اس کو حاصل ہوتا ہے اور و ہی قیادت کا اہل ہوتا ہے جو صرف اپنے سامنے کے واقعات پر نظر نہ رکھے بلکہ آنیوالی صدیاں اسکے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہوں۔ قائد اعظم نے اس وقت یہ بتا دیا تھا کہ اگر پاکستان وجود میں نہ آیا تو مشرق وسطیٰ اور مسلمان ممالک آزادی کی حقیقی نعمت سے مستفید نہیں ہو سکیں گے۔ انڈیا کے امپیریلسٹ کا اثر و رسوخ مشرق وسطیٰ سے ہوتا ہوا مصر تک موجود ہوگا اور اگر پاکستان قائم ہو گیا تو ایک توازن قائم رکھنے والی ریاست موجود ہوگی۔ اس حقیقت سے تو انکار ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کو ایک قابل اعتماد حلیف ميسر آ گیا۔ ایک عرب ملک کے سفیر نے مجھ سے کہا تھا کہ پاکستان در حقیقت عالم اسلام کی سپر پاور ہے اور پاکستان کو اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ حالیہ ایران اسرائیل تصادم کربناک واقعات کا تسلسل ہے۔ جس میں خوش آئند امر یہ ہے کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچانے میں اسرائیل تا دم تحریر ناکام ہے اور اس تنازع میں پاکستان نے جو مثبت کردار ادا کیا ہے وہ پورے عالم اسلام میں سراہا جا رہا ہے۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ پاکستان کو، چاہے وہ ڈی ایٹ تنظیم کی مانند ہو یا او آئی سی جیسی کوئی تنظیم کے حوالے سے کام کرنا چاہئے کہ پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک کے مابین ہر حوالے سے تعاون کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے۔ عرب ممالک بہت بڑا دفاعی بجٹ رکھتے ہیں مگراس دفاعی بجٹ کے اثرات ان کے دفاع پر نظر نہیں آتے۔ اگر پاکستان اور یہ ممالک سلامتی کا باہمی معاہدہ کرلیں تو ایسی صورت میں انکے دفاعی بجٹ کا استعمال حقیقی معنوں میں انکے دفاع کیلئے مؤثر ثابت ہو سکتا ہے اور اگر اسرائیل کےحالیہ اقدامات کے باوجود مسلمان ممالک کبوتر کی مانند آنکھيں بند کیے بیٹھے رہے تو پاکستان نا سہی باقی بہت ساروں کیلئے اسرائیل تیار بیٹھا ہے کہ یا تو میری چوہدراہٹ مانو یا میں تم کو روندنے کیلئے ہر اخلاقیات کو پامال کرنے پر آمادہ ہوں۔

تازہ ترین