• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تائیوان کے مادر وطن چین سے دوبارہ اتحاد کے بارے میں میری رائے

تحریر: ژاؤ شیرین،

چینی قونصل جنرل لاہور

تائیوان ازل سے چین کا حصہ رہا ہے۔ اس کا چینی مادر وطن سے دوبارہ اتحاد نہ صرف 1.4ارب چینی عوام کی مشترکہ خواہش ہے بلکہ یہ تاریخ، انصاف اور وقت کے دھارے کا لازمی اور ناگزیر تقاضا بھی ہے۔تائیوان اور چینی سرزمین کے درمیان ناقابلِ انکار تعلقات مضبوط تاریخی اور قانونی بنیادوں پر قائم ہیں۔ چین کی قدیم کتب اور تاریخی ریکارڈز اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ چینی قوم نے ابتدائی ادوار میں تائیوان کو آباد کیا۔ حالیہ آثارِ قدیمہ کی دریافتیں بھی ان گہرے رشتوں کی توثیق کرتی ہیں۔ سب سے قدیم حوالہ سن 230 میں ریاست وو کے مورخ شین ینگ کی تحریر سی بورڈ جیوگرافک گزیٹیئر میں ملتا ہے، جب تائیوان کو 'لیوکیو کہا جاتا تھا۔ سوی، سونگ، یوآن اور چنگ ادوار میں چینی حکومتوں نے باقاعدہ انتظامی کنٹرول کے ذریعے تائیوان اور پنگھو کے امور سنبھالے۔ 1684 میں چنگ سلطنت نے تائیوان کو فو جیان صوبے کا حصہ بنایا، اور 1885 میں اسے چین کا 20واں صوبہ قرار دیا۔ 1662 میں جنرل ڑینگ چنگ گونگ نے ہالینڈ کے نوآبادیات کو نکالا، جبکہ 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے بعد چین نے تائیوان پر دوبارہ خودمختاری حاصل کی۔ ان تاریخی شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ تائیوان ہمیشہ چین کا اٹوٹ حصہ رہا ہے۔یکم اکتوبر 1949 کو عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد، کوومنٹنگ حکومت کے انخلا کے بعد بیجنگ حکومت پورے چین، بشمول تائیوان، کی واحد قانونی حکومت بن گئی۔اس سال نہ صرف چین کی جاپانی جارحیت کے خلاف فتح، بلکہ عالمی اینٹی فاشسٹ جنگ اور تائیوان کی بازیابی کی80ویں سالگرہ بھی ہے۔ یہ تاریخ ساز کامیابیاں دوسری جنگ عظیم کے بعد کے عالمی نظام کا بنیادی حصہ ہیں۔ اسی لیے تائیوان کی حیثیت چینی سرزمین کے ایک حصے کے طور پر ہمیشہ مسلمہ رہی ہے اور رہے گی۔بین الاقوامی معاہدات بھی اس حقیقت کی تائید کرتے ہیں۔ یکم دسمبر1943 کو چین، امریکہ اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر قاہرہ اعلامیہ جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ جاپان نے چین سے جو علاقے چھینے، جیسے تائیوان اور پنگھو جزائر، وہ چین کو واپس دیے جائیں گے۔26جولائی 1945 کے پوسڈیم اعلامیہ میں بھی ان شرائط کو دہرایا گیا۔ ستمبر میں جاپان نے ہتھیار ڈالنے کی دستاویز پر دستخط کیے اور اکتوبر میں چین نے تائیوان پر خودمختاری کے نفاذ کا اعلان کیا۔ قانونی و عملی اقدامات کے ذریعے چین نے تائیوان پر اپنا حق واپس لے لیا۔1971 میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد2758منظور کی، جس میں عوامی جمہوریہ چین کو چین کی واحد قانونی نمائندہ ریاست تسلیم کیا گیا، جبکہ چیانگ کائی شیک کے نمائندوں کو اقوامِ متحدہ اور اس سے وابستہ اداروں سے فوری نکالنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اقوامِ متحدہ کے قانونی شعبے نے واضح طور پر رائے دی کہ "تائیوان چین کا صوبہ ہے اور اس کی کوئی علیحدہ حیثیت نہیں ہے"، اور "تائی پے کی انتظامیہ کو کسی قسم کی حکومتی حیثیت حاصل نہیں"۔ اس طرح ’دو چین‘ یا ’ایک چین، ایک تائیوان‘ جیسی کسی بھی سازش کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔اگرچہ آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف سیاسی اتحاد ابھی تک مکمل نہیں ہوا، لیکن ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ تائیوان چین کا ہی حصہ ہے ۔ حالیہ برسوں میں تائیوان میں موجود ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (DPP) علیحدگی پسندی کے خطرناک ایجنڈے پر گامزن ہے، جو چین کی خودمختاری اور وحدت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے۔ DPP کی خارجہ چالاکیاں اور نام نہاد "سفارتی اتحادی" استعمال کرنے کی کوششیں ناکام ہوں گی۔

ملک بھر سے سے مزید