سنہ 2019 ءمیں انڈیا کے خارجہ سیکریٹری وجے گوکھلے نے کہا تھا کہ ’’انڈیا اور امریکہ اتحادی ہیں لیکن یہ تعاون ایشو بیسڈ یعنی ضرورت کے تحت ہے‘‘ ۔ یہ تب کی بات ہے جب صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنے کے بعد اس وقت کے’’وزیر اعظم‘‘ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے ورلڈ کپ جیت کر آ رہے ہیں ۔ اگر وہ اس وقت صرف ورلڈ کپ جیتنے جتنی معاملہ فہمی سے آگے بڑھ کر خارجہ امور کا جائزہ لینے کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے اور افغانستان کے بدلتے حالات اور اس میں پاکستانی و امریکی ضروریات کے حصول کی خاطر ممکنہ پالیسی کو تشکیل دینے پر اپنی توجہ صرف کرتے تو آج ہمیں کابل سے لے کر واشنگٹن تک جو شکایات ہیں ان سے بہت حد تک واسطہ نہ پڑتا چلو وو وقت تو گزر گیا مگر’’ تجربہ بہترین استاد ہوتا ہے‘‘ کو درست جانتے ہوئے آج ہمیں از سر نو اس کی ضرورت در پیش ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کی موجودہ جہتوں کو سامنے رکھیں اور بہتر سے بہتر راستہ تلاش کریں ورنہ بہت کچھ ہاتھ آیا ہاتھوں سے پھسل سکتا ہے ۔ جب حال ہی میں فیلڈ مارشل کی امریکی صدر سے ملاقات کی خبر آئی تو دوستوں کی محفل میں یہ ہی عرض کیا کہ اس موقع کو خالص طور پر صرف ایک پاکستانی بن کر دیکھنا اور سمجھنا چاہئے ۔ یہ کیسے ممکن ہوا ؟ کیوں ہو رہا ہے ؟ اور اس کے کیا نتائج برآمد ہونگے ؟ ان سوالات کے جوابات جتنی عمیق نظر ی سے تلاش کئے جائیں گے اسی حد تک اس سے فائدہ اٹھانا ممکن ہوپائے گا ۔
یہ کیسے ممکن ہوا تو اس کا بہت واضح جواب موجود ہے کہ غیر روایتی سفارت کاری نے یہ ممکن کر دکھایا کہ امریکی صدر پاکستان کی بری فوج کے سربراہ کے منتظر تھے ۔ غیر روایتی سفارت کاری ہی موجودہ دنیا میں اصل سفارت کاری ہے ۔ روایتی سفارت کاری دفتر خارجہ سے منسلک بیورو کریسی کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ ایک طے شدہ بات ہے کہ کسی دستاویز کی نوک پلک سنوارنا ، اسے کسی قاعدہ قرینے سے تحریر کرنا یہ ان کا بنیادی کام ہےلیکن اگر ان کے ذریعے خارجہ پالیسی کو تشکیل دینے کی جانب جایا جائے یا اہداف حاصل کرنے کیلئےاس پر تکیہ کر لیا جائے تو یہ ان کی استعداد سے زیادہ کی توقع ہوگی ۔
جب آرمی چیف کے دورہ امریکہ کے دوران غیر روایتی سفارت کاری کو اپنایا گیا تو اسکے فوری نتائج برآمد بھی ہو گئے ۔ اور انڈیا پر جو فوجی برتری پاکستان نے قائم کی ہے اس کے اثرات عالمی سیاست پر نظر آنا شروع ہو گئے ۔
یہ حقیقت بھی سب کے سامنے رہنی چاہئے کہ اس غیر روایتی سفارت کاری اور اس کے نتیجے میں صدر ٹرمپ سے آرمی چیف کی ملاقات کو مکمل طور پر حکومت کی حمایت حاصل تھی ۔ نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار جو کہ بہت متحرک ثابت ہوئے ہیں وہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر ہر حوالے سے اس ملاقات بلکہ دورے کو کامیاب بنانے کیلئے تگ و دو میں مصروف تھے اور اس ملاقات کے حوالے سے، مفروضے گھڑنے والوں ، فرضی منظر نامہ تراشنے والوں کو سوائے اپنی حسرتوں پر آنسو بہانے کے علاوہ اور کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔ اگلا سوال تھا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے تو معاملہ واضح ہے کہ پاکستان نے جو کارکردگی عسکری محاذ پر دکھائی تو اس سے امریکہ سمیت ساری دنیا چونک گئی اور صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ ہمارے دوست بھی اس پر انگشت بدنداں رہ گئے ۔جنرل ساحر شمشاد مرزا کا یہ کہنا کہ 96 گھنٹوں کے دوران جو کچھ ہوا، وہ مکمل طور پر پاکستان نے اپنے طور پر کیا، کہیں سے کوئی مدد نہیں حاصل کی گئی، واضح کرتا ہے کہ پاکستان نے جو بھی کیا اپنے بل بوتے پر کیا ۔
ایسی کیفیت میں امریکہ کی اختیار کی گئی انڈو پیسفک پالیسی سے لے کر کواڈ تک کے حوالے سے سوالات خود امریکی پالیسی سازوں ، تھنک ٹینک سے وابستہ ماہرین تک کے سامنے کھڑے ہو گئے ہیں ۔ ڈینیل مارکی جیسے پاکستان افیئرز کے ماہرین نے امریکہ کی مستقبل کی پالیسی پر سوالات کر ڈالے ۔
صدر ٹرمپ نے اس ملاقات میں پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کی گرفتاریوں سے لے کر پاکستان کی جانب سے امریکی درخواست کو تسلیم کرتے ہوئے مزید انڈین طیاروں کو نہ دھول چٹانے پر شکریہ ادا کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کے حوالے سے گفتگو ہوئی ، یہ واضح رہے کہ امریکی حملوں کے باوجود ایران کی نیوکلیئر صلاحیت کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا اور پاکستان کی خواہش ہے کہ اس جنگ کا جلد از جلد خاتمہ ہو ۔ اور امریکہ میں یہ تصور بہت مضبوط ہے کہ پاکستان کمزور معیشت کے باوجود چین سے ٹریڈ بیلنس نہیں رکھتا اور امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان چین کی مانند امریکہ کے ساتھ بھی کاروباری تعلق مزید مضبوط بنائے ۔ دنیا اس وقت سنگل الائنمنٹ یا نان الائنمنٹ خارجہ پالیسی سے آگے بڑھ کر ملٹی الائنمنٹ خارجہ پالیسی کی جانب جا چکی ہے اور پاکستان کو بھی دنیا بھر میں دوستوں کی تعداد کو بڑھانے کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہئے ۔ اور یہ بات واضح ہے کہ ہمارے سرد و گرم ہر موسم کے دوست چین کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پاکستان کے تعلقات امریکہ سے کس حد تک مزید بڑھ جاتے ہیں ، دونوں ممالک کی دوستی اس سے بلند ہو چکی ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملاقات سے مزید مثبت نتائج کیسے حاصل کئے جا سکتے ہیں ؟ سب سے پہلے تو اس بات پر فوری دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ غیر روایتی سفارت کاری کرنے کی غرض سے ہراہم اور ممکنہ اقدام کیا جائے ، ایک پوری ٹیم تشکیل دی جائے ، ابھی جو ہمارا سفارتی مشن گیا تھا اور انڈیا کا سفارتی مشن مقابلے میں تھا اس کا تقابلی جائزہ سمجھنے کیلئے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ دونوں ممالک کے وفود کی ملاقاتیں کس سطح پر ہوئیں ؟ ہمیں جلد از جلد غیر روایتی سفارت کاری کی جانب بڑھ جانا چاہئے ۔