الحمدللہ ایران اسرائیل جنگ 12روزہ تباہ کاریوں کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خصوصی کاوشوں سے اختتام پذیر ہوگئی ہے بصورتِ دیگر اس نوع کے خدشات واضح تھے کہ یہ جنگ بھی ایران عراق جنگ کی طرح برسوں پر محیط ہوسکتی تھی۔ مسئلہ مسلم اور یہود کا نہیں تھا۔ ایران عراق تو دونوں مسلم تھے او آئی سی نے ضیاء الحق کی سربراہی میں پورا زور لگایا لیا تھا لیکن یہ جنگ جدید تاریخ کی طویل ترین جنگ ثابت ہوئی جس میں ہردواطراف سے لاکھوں بے گناہ لقمۂ اجل بنا ڈالے گئے بالآخر عالمی طاقتوں بالخصوص امریکا ہی کی مداخلت سے جب یہ جنگ بند ہوئی تب بھی ایرانی اسلامی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے الفاظ تھے کہ ”ہم نے مجبور ہوکر زہر کے یہ گھونٹ پیے ہیں۔“ اب کے بھی اس نوع کے شدید خدشات تھے،ایک طرف اسرائیلی ریاست تھی جسکے پیچھے امریکا و یورپ پوری طاقت سے کھڑے تھے بلکہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ کے الفاظ میں جو عرب ممالک ایران پر اسرائیلی حملے کی بظاہر مذمت کررہے تھے فی الحقیقت وہ بھی ہماری حمایت میں تھے ظاہری مذمتی بیانات انکی علاقائی و سیاسی مجبوری تھی۔دوسری طرف امریکا کی مخالف عالمی طاقتیں بالخصوص چائینا و رشیا بوجوہ شاید ایران کی پیٹھ ہی نہیں ٹھونک رہے تھیں بلکہ پیوٹن کے الفاظ میں ہم نے ایران کی جو مدد کی ہے موجودہ عالمی صورتحال میں مناسب نہیں ہے کہ ہم اسکی تفصیل بیان کریں۔ یہ جنگ اگر طول پکڑ جاتی تو مڈل ایسٹ میں نہ صرف یہ کہ اسکا دائرہ وسیع ہونے کے واضح خدشات تھے بلکہ بربادی کی ایک نئی داستان رقم ہوسکتی تھی۔ اس 12روزہ جنگ میں ایران اور اسرائیل ہر دو ممالک نے کیا کھویا اورکیا پایا ؟اس کا جائزہ لینے سے قبل ایک نظر اس امر پر کہ یہ جنگ شروع کیوں ہوئی تھی؟ درویش کی ساری زندگی مڈل ایسٹ کے ایشوز کی سٹڈی کرتے اور جائزہ لیتے گزری ہے اور وہ گزشتہ تین دھائیوں سے یہ لکھتا بولتا آرہا ہے کہ 1979ء میں امام خمینی کا اسلامی انقلاب کے بعد ’’مرگ برامریکا‘‘ اور ’’مرگ اسرائیل‘‘ کی جو سوچ اور اپروچ پیہم چلی آرہی ہے اس فضا میں یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ویسٹرن پاورز ایران کا ایٹمی پاور بننا گوارا کرلیں، چاہے انہیں اس حوالے سے کسی بھی حد تک کیوں نہ جانا پڑے۔ ایسے میں ایران پرامن ایٹمی توانائی کے نام پر ہیوی بنکرز میں ایٹمی تنصیبات تعمیر کرے تو امریکا کے لاڈلے بچے سکون کی نیند کیسے سو سکتے ہیں؟درویش اس حالیہ جنگ کو 7اکتوبر 2023ء کی اسرائیل کے اندر گھس کر حماس کی کارروائی کا تسلسل سمجھتا ہے۔ حماس نے یہ قدم ایسے واضح شواہد ملنے کے بعد اٹھایا تھا کہ جی20سمٹ کے بعد ایک بزنس کاریڈور یا ریلوے ٹریک کے ذریعے ریاض، عمان اور حیفا کو جوڑتے ہوئے خطے میں ایک مشترکہ تجارتی حب بنائی جارہی تھی جو یورپ تک پہنچنی تھی۔ پس منظر میں یہ اپروچ واضح تھی کہ ابراہم اکارڈ کے تحت سعودی عرب کی قیادت میں عرب ممالک اسرائیل سے قربت بڑھاتے ہوئے سفارتی تعلقات تک چلے جائینگے اس سارے امریکی پلان کو ناکام بنانے کیلئے 7اکتوبر کی وہ کارروائی ہوئی جس نے پورا سنیریو ہی بدل ڈالا۔ اس امریکی پلان کو سبوتاژ کرنے میں حماس یا ایران بلاشبہ کامیاب ہوگیا لیکن ایٹ دی اینڈ حاصل حصول کچھ نہ ہوا۔ الٹا نقصان یہ ہوا کہ ردِعمل میں اسرائیلیوں نے نہ صرف یہ کہ غزہ کا تورا بورا بناڈالا بلکہ اسرائیل کے متوازی مجوزہ فلسطینی ریاست کے مطالبے سے رہی سہی ہوا بھی بڑی حد تک نکل چکی ہے اب پہلی مرتبہ خود امریکا میں اس نوع کی آوازیں اٹھی ہیں کہ غزہ کے عرب مسلمانوں کو ہمسایہ عرب مسلم ممالک میں بسانے کی کوئی قابلِ عمل منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ اس تماتر کاوش کا نقصان یہ پہنچا ہے کہ اسرائیلیوں نے نہ صرف یہ کہ حماس کو بڑی حد تک کمزور کردیا ہے بلکہ حزب اللہ کی طاقت کا بھی خاتمہ ہو گیا ہے۔ ایران کیلئے یہی صورتحال سیریا میں پیدا ہوئی، بشارالاسد کی شیعہ علوی حکومت کا تختہ ہی نہیں الٹا گیا بلکہ احمد الشرع کی قیادت میں حکمرانی ان سنی شدت پسندوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔ جو یہودیوں سے تو افہام و تفہیم کرسکتے ہیں لیکن شیعہ بھائیوں کو ایک آنکھ نہیں دیکھ سکتے۔اس کا فائدہ ایران مخالف ملکوں کو پہنچا ہے۔ بس یہی وہ حالات تھے جنہیں مناسب دیکھتے ہوئے اسرائیل نے 13جون کی صبح کاذب ایران پر وہ یلغار کی جس میں ایران کا محض انفراسٹرکچر تباہ نہیں کیا گیا بلکہ بہت سے پرعزم ایرانی انقلابی جنرلز اور ایٹمی سائنسدان بھی مارے گئے۔ مضبوط بنکرز میں ایرانی ایٹمی تنصیبات کو اڑانا اسرائیل کے بس میں نہیں تھا تو یہ کارروائی امریکیوں نے ماڈرن ٹیکنالوجی اور پوری عسکری فضائی طاقت سے کر ڈالی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ ایرانیوں نے اپنا چار سو کلو افزودہ یورینیم کسی اور جگہ منتقل کرلیا تھا۔ کیا یہ محض فیس سیونگ کیلئے ریاستی پروپیگنڈا ہےیا واقعی ایسا کوئی اہتمام کرنے میں ایرانی پاسداران کامیاب ہوئے ہیں وقت کیساتھ یہ سب واضح ہوجائیگا۔ ٹرمپ اور نیتن یاھوکی خوشی تو اس کے برعکس ہے لیکن بشمول ٹرمپ امریکا سے یہ آوازیں بھی آرہی ہیں کہ ایسی صورتحال سے وقت آنے پر دوبارہ بھی نمٹا جاسکتا ہے۔ اس جنگ میں ایران کو یہ کریڈٹ ضرورت جاتا ہے کہ اس نے اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر ختم کر دیا، وہیں اس نے اپنی میزائل ٹیکنالوجی کی دھاک بھی بٹھادی ہے۔ اسرائیل کے ترقی یافتہ انفراسٹرکچر کو ایرانی میزائلوں نے جس بری طرح ٹارگٹ کیا ہے اسرائیلیوں یا اسکے مغربی اتحادیوں نے اس صورتحال کا سوچا بھی نہیں ہوگا۔ اسرائیلی عوام ایرانی میزائلوں کی تباہی پر بلبلا اٹھے اور اکثر مقامات پر امن کی دُھائی دیتے پائے گئے۔ اس جنگ میں 28اسرائیلیوں نے اپنی جانیں گنوائیں جبکہ دوسری طرف ایرانی شہادتوں کی تعداد سینکڑوں میں بیان کی جارہی ہے بالخصوص ایرانی جرنیلوں اور سائنسدانوں کی شہادتیں زیادہ دردناک ہیں۔