اسلام آباد (ساجد چوہدری )ماہرین نے کہا ہے کہ بھارت کی جنگجویانہ پالیسیوں کے خلاف قومی سطح کی جامع حکمتِ عملی اپنائی جائے، بھارت کی نئی حکمتِ عملی کا مقابلہ کرنے کےلئے طویل المدتی سفارتی کوششوں اور بحران سے نمٹنے کا دوطرفہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا گیا، گزشتہ روز نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) کے انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اور سینٹر فار پیس اینڈ اسٹیبلیٹی کے اشتراک سے "پاک بھارت عسکری تنازع،علاقائی استحکام کے امکانات، چیلنجز اور مواقع" کے موضوع پر اعلیٰ سطحی گول میز اجلاس کا انعقاد کیا گیا، جلاس میں ماہرین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ خطے میں بڑھتی ہوئی بے یقینی، بھارت کی جارحانہ حکمتِ عملی اور سندھ طاس معاہدے کو غیر مؤثر بنانے کی کوششیں ایک سنگین خطرہ ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے مؤثر دفاعی حکمتِ عملی، فعال سفارتکاری اور قانونی اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں، سابق سفیر اور اسٹریٹجک پلانز ڈویژن کے مشیر ضمیر اکرم نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کی جوہری صلاحیت ایک مکمل جنگ کو روکنے کی ضامن ہے ،تاہم بھارت کی جارحیت پسندی خطے کے امن و استحکام کے لیے مستقل خطرہ بنی ہوئی ہے، انہوں نے مسئلہ کشمیر کےبین الاقوامی سطح پر دوبارہ توجہ حاصل کرنے اور پاکستان و چین کی شراکت داری کو ملک کے لیے مثبت پیش رفت قرار دیا۔ انہوں نے بھارت کی نئی حکمتِ عملی کا مقابلہ کرنے کے لیے طویل المدتی سفارتی کوششوں اور بحران سے نمٹنے کا دوطرفہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت پر زور دیا،اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ارشد محمود نے اپنے خطاب میں پاک-بھارت تعلقات میں حالیہ تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہوئے مودی سرکار کے علاقائی بالا دستی کے عزائم پر روشنی ڈالی۔