کراچی (ٹی وی رپورٹ)کراچی میں چھ منزلہ عمارت گرنے کا واقعہ ،قانون کیا کہتاہے ،اس حوالے سے جیو خصوصی نشریات میں گفتگو کرتے ہوئے حکام اور ماہرین جن میں چیئرمین آباد حسن بخشی ، سابق ایڈمنسٹریٹر کراچی فہیم زمان صدیقی ، صوبائی وزیر بلدیات سعید غنی ،وائس چانسلر این ای ڈی یونیورسٹی ڈاکٹر سروش لودھی ، آرکٹیکٹ یاسمین لاری ،سابق چیف فائر آفیسر کاظم علی ، شامل تھے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک مسئلہ جو ہمارے سامنے ہے وہ یہ کہ پرانے علاقوں میں رہنے والے اپنے علاقوں کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتے ہیں ،جو بلڈنگز بن رہی ہیں ان میں انجینئرنگ کا استعمال ہی نہیں ،جوبلڈنگز بن رہی ہیں ان کو بنوانے والے کریمنلز اور مافیاز ہیں، ایسے لوگوں کے خلاف ناقابل ضمانت ایف آئی آرز درج ہونی چاہئیں کیونکہ یہ لوگوں کی جان و مال سے کھیل رہے ہیں اور یہ کھیل 25 سال سے چل رہا ہے، اگر کوئی بلڈنگ مخدوش قرار دی جاتی ہے تو اس کا مک مکا تیسرے نوٹس تک ہوجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں سے لوگوں کو نکالنے کی نوبت ہی نہیں آتی ،ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ جو بلڈنگز بن رہی ہیں ان میں انجینئرنگ کا استعمال ہی نہیں ہورہا ہے ، بلڈنگ کا گرجانا ہماری اپنی کوتاہیوں کی نشاندہی کررہا ہے یہ کوئی ایک بلڈنگ کا مسئلہ نہیں ہے یہاں تو شہر کراچی مخدوش عمارتوں سے بھرا ہوا ہے، اس طرح کے حادثات میں سب سے اہم کردار عوام کا ہوتا ہے ۔چیئرمین آباد حسن بخشی نے کہاکہ کراچی میں 600 کے قریب ایسی عمارتیں ہیں جن کو خطرناک قرار دیا جاچکا ہے یہ وہ عمارتیں ہیں جو 1940 یا 1950ء کے عرصے میں بنی ہیں اور ان میں جو لوگ رہائش پذیر ہیں ان میں سے زیادہ تر پگڑی پر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب اس طرح کی عمارتیں خطرناک ڈیکلیئر ہوتی ہیں تو اس کے مالک کو انتظار ہوتا ہے کہ یہ عمارت ڈیمالش ہو اور اس کو پلاٹ ملے تاہم جو اس بلڈنگ میں رہائش پذیر ہوتے ہیں ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ ان کے پاس کوئی متبادل ٹھکانہ نہیں ہے اور وہ بے یارو مددگار ہوں گے ۔