اگرآپ سے پوچھا جائےکہ آج کا انسان مہذب ہے یا وہ جو غار میں رہتا تھا؟ آپ کہیں گے ، آج کا ۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد کے بعد دنیا بھر کے انسان ایک دوسرے کے ساتھ اپنا علم بانٹنے لگے۔ اقوامِ متحدہ کا عظیم ادارہ بنایا گیا۔ تیسری جنگِ عظیم اب تک نہیں ہو سکی ۔
حقیقت مگر مختلف ہے ۔ 199ممالک میں سے پانچ کو ویٹو کا حق حاصل ہے ۔بار بار غزہ جنگ بندی کی قرار داد ویٹو کرانے والے صدر ٹرمپ نوبل انعام کے خواہشمند ہیں ۔ منافقت کا جس قدر دور دورہ ہے ،ایسا ہو بھی سکتاہے ۔ منافقت کا عالم یہ ہے کہ حملہ اسرائیل نے کیا، عالمی برادری ایران کوکوستی رہی ۔اندیشہ ہے کہ ایران ایٹم بم بنالے گا اور جو بنا چکا ہے یعنی اسرائیل ، اس کی خیر ہے ۔ چین نے کہا، کسی دوسرے ملک کی جوہری تنصیبات پر حملہ کر کے امریکہ نے ایک بہت غلط مثال قائم کی ہے ۔ اگر کوئی حادثہ ہو جاتا تو پورا کرہ ء ارض نتیجہ بھگتتا۔ اندر خانے چینیوں کو علم ہے کہ تابکاری کا ایک فیصد خطرہ بھی ہوتا تو کوئی پاگل ہی بم گرا سکتا تھا۔
تین لاکھ سال تک مہذب ہونے کی کوشش کے باوجود انسان آج بھی کھلا جھگڑالو ہے ۔ قرآن کے الفاظ میں" خصیم مبین" جھگڑے کے یہ جینز بھی قدرت نے ہی انسان کے اندر رکھے ہیں ورنہ انسان گریٹ ایپ چمپنزی کی طرح متشدد ہونے کی بجائے گریٹ ایپ بونوبو کی طرح پر امن بھی ہوسکتا تھالیکن عقل کا امتحان پھر کیسے لیا جاتا۔ اس دنیا میں جس کے ہاتھ میں طاقت ہے ، قانون اس کا کچھ نہیں کر سکتا ۔ کشمیر اور فلسطین کا مسئلہ اتنا پیچیدہ تو نہیں۔ چوالیس لاکھ مربع کلومیٹر کا برصغیر بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش میں تقسیم ہو سکتاہے لیکن کشمیر کا فیصلہ نہیں ہو سکتا ۔فرض کریں کہ انسان باہم متصادم نہ ہوتا ۔ متحارب ممالک مثلاً یورپ ، روس، امریکہ اور افغانستان ، بنگلہ دیش، چین، بھارت اور پاکستان آپس میں تعاون کر رہے ہوتے تو کیا ہوتا؟ اگر کوئی عالمی تنازع پیدا ہوتا ، جیسا کہ پاکستان اور بھارت میں پانی کا مسئلہ تو عالمی ادارے میرٹ پر فیصلہ کر دیتے۔
یہ سب اگر ہو جاتا تو انسان مریخ اور اس سے بھی آگے تک بستیاں بسا چکا ہوتا۔ ہرانسان پیٹ بھر کر سوتا ۔ ہر بیمار کو علاج میسر ہوتا لیکن ایسا کبھی بھی نہیں ہو سکے گا؛حتیٰ کہ انسانوں کی مہلت ختم ہو جائے گی ۔ انسان لڑتے رہیں گے ؛حتیٰ کہ وہ خوفناک حادثہ رونما ہو جائے گا ، جسے قرآن " القارعہ" کہتا ہے ۔ سورج ایک چنگھاڑ کے ساتھ پھٹ کے پھیل جائے گا ۔دہشت سے حاملہ عورتوں کے حمل گر جائینگے ۔ دودھ پلانے والیاں دودھ پیتے بچوں کو بھول جائیں گی ۔آسمان پھٹ جائیگا۔ستارے بکھر جائینگے ۔پہاڑ اڑ جائینگے۔ زمین اپنے اندر کے بوجھ نکال پھینکے گی ۔
خرابی انسان کے جینز میں ہے ۔بکل دے وچ چور ۔ ہر گھر میں ، ہر معاشرے میں دولت اور اقتدار کے بھوکے ایسے لالچی اور طاقتور افراد موجود ہیں ، جو کہتے ہیں کہ ہم دوسروں کا حصہ بھی کھا جائیں ۔
آپ کے خیال میں ٹرمپ کیا ہے ؟وہ طاقتور لابسٹ جو دوسروں کے مال پر قبضہ اپنا حق سمجھتا ہے ۔ عرب بادشاہتوں کے امیر کیا ہیں ۔ بشار الاسد کیا ہے ۔احمد الشرح کیا ہے ؟ جس نے دشمنوں کو قتل کر دیا اور پینٹ کوٹ پہن کر معزز ہو گیا ۔ پیوٹن کیا ہے ۔ پیوٹن اور طیب اردوان کا توزندہ حالت میں تخت سے اترنے کا کوئی امکان نہیں ۔ شیخ حسینہ کیا ہے ۔کیوں اتنی بری طرح تخت سے چمٹ گئی تھی ۔ پاکستان میں کیوں وزرائے اعظم تخت پہ بٹھائے اور اتارے جاتے ہیں ۔ یحییٰ خان اور بھٹو کیوں یہ سمجھ نہ سکے کہ شیخ مجیب الرحمٰن سے اقتدار چھیننے کا مطلب ہے ، مشرقی پاکستان کی علیحدگی ۔ لالچ کا دیو بندوق اٹھائے کھڑا ہو توعقل کی نازک پری کیا کرے ۔
یہ سب پاگل ہیں ۔جس شخص کی کل عقل ہتھیالینے پر مرتکز ہو، وہ لانگ ٹرم میں دیکھ ہی نہیں سکتا۔ ٹرمپ جیسے آدمی کے سامنے اگر آپ کسی نادار کو خیرات دے دیں تو وہ آپ کو پاگل ہی سمجھے گا ۔ حضرت امام حسین ؓ کے مخالف بھی خود کو دانا سمجھتے تھے ۔ وہ یہ نہیں سمجھ سکے کہ ہر ناجائز حربہ آزما کے انسان تخت پہ بیٹھ بھی جائے تو مٹی کے اس نازک جسم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وہ کتنا انبساط حاصل کر سکتاہے ۔ کُل ساڑھے تین سال کا یزید کا اقتدار تھا۔ 1342سال سے کل عالم اس پہ لعنت کر رہا ہے ۔ ہے کوئی جو اپنی اولاد کا نام یزید رکھے؟
بات ہو رہی تھی عدل کی۔ امریکہ، روس ، برطانیہ، کوئی ملک انصاف پہ آمادہ نہیں ۔ جس ملک کا جتنا بڑا رقبہ ،جتنی بڑی منڈی، مالی، عسکری حیثیت اور لابنگ کی صلاحیت ، اتنی دنیا میں اس کی بات سنی جاتی ہے ۔ یہی حال افراد کے باہمی روابط کا ہے ۔ یہی حال بعض ملکوں کے مختلف اداروں کا ہے ۔ یہی حال ذرائع ابلاغ کا ہے ۔ سچ زبان پہ لایا نہیں جا سکتا ۔
سچ آکھیاں بھانبھڑ مچدا اے
سچ بولتے بولتے بلھے شاہ مر گیا۔ طاقتور لوگ اپنے قبرستان میں دفنانے نہ دیتے تھے ۔ کوئی کمزور اپنے جائز حق کی بات کرے تو قوموں کی برادری میں اس کا حال شمالی کوریا اور ایران جیسا ہوتا ہے ۔
ٹرمپ جیسے چالاک لوگ چونکہ لانگ ٹرم میں نہیں دیکھ سکتے ، اسلئے وہ بھول جاتے ہیں کہ القارعہ کے بعد انسانوں کو اللّٰہ کے سامنے پیش ہونا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ انسان اللّٰہ کے سامنے اپنے اپنے جھگڑے اور اپنا اپنا مدعا لیکر پیش ہونگے ۔ اللّٰہ فیصلہ کرے گا کہ حق پر کون ہے ۔ اس دن نہ کسی کا مال کام آئے گا اور نہ لابنگ ۔اس دن ٹرمپ جیسے شاطر اپنی چرب زبانی اور ابنگ کی صلاحیت کو پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھ رہے ہونگے۔ یہی ہوگا سچ بولنے کا دن اور یہی ہوگا سچے فیصلوں کا دن۔