• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

300 ارب روپے کا گندم اسکینڈل، اداروں کی تاخیر اور بدنیتی سے نقصان ہوا


انصار عباسی

اسلام آباد :…آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) نے مالی سال 2023-24ء کے دوران سامنے آنے والے 300؍ ارب روپے مالیت کے گندم اسکینڈل میں ’’بدنیتی‘‘، ’’ناقابل اعتبار اعدادوشمار‘‘، وفاق اور صوبوں کی جانب سے تاخیر سے کیے گئے اقدامات، اور نجی شعبے کو فائدہ پہنچانے کی نیت سے مقامی کاشتکاروں اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے جیسے عوامل کو ذمہ دار قرار دیا ہے۔

یہ اسکینڈل پہلے ہی میڈیا اور عوامی سطح پر توجہ حاصل کر چکا تھا، تاہم اب اے جی پی کی رپورٹ نے نہ صرف اس کی باضابطہ تصدیق کر دی ہے بلکہ نئی شہادتیں بھی فراہم کی ہیں جن میں جعلی ڈیٹا، بدنیتی اور سرکاری سطح پر کی جانے والی سُستی جیسے عناصر کی نشاندہی کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2023-24ء کے دوران 35؍ لاکھ 90 ہزار میٹرک ٹن گندم درآمد کی گئی، حالانکہ حکومت کی جانب سے منظور شدہ کوٹہ 24؍ لاکھ میٹرک ٹن تھا۔ 

یہ درآمد اس وقت کی گئی جب ملک میں مقامی سطح پر گندم کی پیداوار تاریخی سطح یعنی 3؍ کروڑ 14؍ لاکھ 70؍ ہزار میٹرک ٹن تھی اور 46؍ لاکھ 40؍ ہزار میٹرک ٹن کا ذخیرہ بھی موجود تھا۔

اے جی پی نے درآمدات کا جواز ’’مکمل طور پر ناقابل اعتبار‘‘ قرار دیتے ہوئے اشارہ دیا ہے کہ قومی طلب کے اندازے کو جان بوجھ کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ رپورٹ میں لکھا گیا: ’’لگتا ہے ضرورت کو بدنیتی کے تحت پیش کیا گیا۔‘‘

 رپورٹ کے مطابق، درآمدات کیلئے جو اعداد و شمار استعمال کیے گئے ان میں نمایاں تضادات پائے گئے، خصوصاً ابتدائی اور اختتامی اسٹاک کے حوالے سے۔ اے جی پی کے مطابق، سرکاری اجلاسوں میں پیش کیے گئے گندم کے ذخائر کے اعدادوشمار میں اختلاف تھا، اور انہی اعدادوشمار کی بنیاد پر درآمد کے فیصلے کیے گئے۔ 

ان غلط اعدادوشمار کے نتیجے میں یا تو ضرورت سے زائد درآمدات ہوئیں یا وقت پر اقدامات نہ ہونے سے قلت پیدا ہوئی۔

رپورٹ کے مطابق، گندم کے بڑے پیداواری مراکز سمجھے جانے والے صوبوں پنجاب اور سندھ نے 2023ء کے وسط میں فلور ملز کو گندم کی بہت کم مقدار فراہم کی، جس سے مارکیٹ میں مصنوعی قلت کا تاثر پیدا ہوا اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ 

مثال کے طور پر، پنجاب نے جون تا اکتوبر 2023ء صرف 5؍ ہزار 657؍ ٹن گندم جاری کی، جبکہ پچھلے سال اسی عرصے میں یہ مقدار 20؍ لاکھ ٹن سے زیادہ تھی۔رپورٹ میں سب سے سنگین انکشاف یہ کیا گیا ہے کہ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (ٹی سی پی) کے ذریعے سرکاری سطح پر گندم کی درآمد میں جان بوجھ کر تاخیر کی گئی۔

 اگرچہ اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) اور وفاقی کابینہ نے 10؍ لاکھ میٹرک ٹن گندم کی درآمد کی منظوری دی تھی، وزارت غذائی تحفظ نے ایک ماہ سے زائد عرصہ تک فائل روک کر رکھی اور پھر ٹی سی پی کو ہدایت دی کہ وہ خریداری روک دے—اس وقت تک نجی درآمد کنندگان گندم مارکیٹ میں لا چکے تھے۔

رپورٹ کے مطابق، وزارت غذائی تحفظ اور وزارت تجارت نے نجی شعبے کو فائدہ پہنچانے کی خاطر جان بوجھ کر درآمدی عمل کو تاخیر کا شکار بنایا۔ 

وزارت تجارت نے نجی درآمدات پر حد مقرر کرنے، وقت طے کرنے اور انہیں براہ راست فلور ملز کو فروخت کرنے کی تجویز دی تھی تاکہ عوام کو قیمتوں میں ریلیف ملے۔ لیکن وزارت غذائی تحفظ نے ان سفارشات کو نظر انداز کر کے اوپن اینڈڈ درآمدات کی اجازت دے دی، جس سے مقامی مارکیٹ غیر مستحکم ہوئی اور کاشتکاروں کو نقصان ہوا۔

 اے جی پی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2023-24ء میں سرکاری شعبے کی گندم خریداری ہدف سے 25؍ فیصد کم رہی، جبکہ 2024-25ء میں یہ کمی 40؍ فیصد تک جا پہنچی، اور پنجاب نے 2024-25ء میں ایک دانہ گندم بھی نہیں خریدی۔ 

حکومت نے گندم کا کم از کم امدادی نرخ کا بروقت اعلان نہیں کیا، جو کاشتکاروں کو قیمت کا تحفظ فراہم کرنے والی اہم پالیسی ہوتی ہے۔ 

مارچ 2023ء میں جب فصل تیار ہو چکی تھی، تب کم از کم امدادی نرخ (منیمم سپورٹ پرائس) کا اعلان کیا گیا، جس کے باعث کاشتکار مارکیٹ کے رحم و کرم پر رہے۔

حکومت نے درآمدی کوٹے کا جواز اس بنیاد پر پیش کیا تھا کہ اس سے اسٹریٹجک ذخائر قائم کیے جائیں گے، لیکن اے جی پی نے اس دعوے کو مسترد کر دیا۔ 

رپورٹ میں کہا گیا کہ گندم فصل کی کٹائی سے عین قبل درآمد کی گئی، اور اسے ریاست کے بجائے نجی درآمد کنندگان نے ذخیرہ کیا، کیونکہ حکومت کے پاس صرف 5؍ لاکھ میٹرک ٹن گنجائش تھی۔

رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسٹریٹجک ذخائر سے متعلق دعوے غلط اور گمراہ کن تھے، مقامی کاشتکاروں کے فوائد درآمد کنندگان اور ذخیرہ اندوزوں میں بانٹے گئے۔ 

ایک اور حیران کن انکشاف یہ ہے کہ افغانستان کی گندم کی طلب کو بغیر کسی دستاویز یا جواز کے پاکستان کی ملکی کھپت میں شامل کیا گیا۔ 

امریکی محکمہ زراعت کے مطابق، افغانستان کو 5؍ لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم برآمد کی گئی، لیکن یہ مقدار سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں کی گئی۔ اس سے قومی طلب کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور درآمدات کا جواز بنایا گیا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل کی جانب سے وزارت غذائی تحفظ کو 20؍ اور 28؍ جنوری 2025ء کو باضابطہ طور پر یہ مشاہدات بھجوائے گئے اور جواب، ریکارڈ کی تصدیق اور متعلقہ اجلاسوں کی درخواست کی گئی، لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ 

آڈیٹر جنرل کی یہ رپورٹ محض انتظامی کمزوریوں کی نہیں بلکہ دانستہ کیے گئے فیصلوں کا احاطہ کرتی ہے، جن کے ذریعے نجی درآمد کنندگان کو فائدہ پہنچایا گیا، غذائی تحفظ کو نقصان پہنچا، مقامی کاشتکاروں کو مالی نقصان ہوا اور قومی خزانے کو سینکڑوں ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔

اہم خبریں سے مزید