• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی جامعات عالمی درجہ بندی سے باہر، ماہرین کا فوری اصلاحات کا مطالبہ

کراچی (سید محمد عسکری) حال ہی میں جاری ہونے والی کیو ایس ورلڈ یونیورسٹی رینکنگز 2026 میں کوئی بھی پاکستانی جامعہ دنیا کی سرفہرست 350 جامعات میں شامل نہ ہو سکی، جس پر ملک میں اعلیٰ تعلیم کے زوال پذیر معیار پر ایک بار پھر گہری تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن (ایچ ای سی) کے سابق چیئرمین اور صوبائی ایچ ای سی کے حکام نے اس صورتحال پر شدید تشویش ظاہر کی ہے اور فوری اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے تاکہ اس تنزلی کو روکا جا سکے۔ سابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر جاوید لغاری نے عالمی درجہ بندی میں پاکستان کی پوزیشن پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران پاکستانی جامعات بدترین مقام پر پہنچ چکی ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اگر ہم نے وہی سمت برقرار رکھی ہوتی جو میرے دور کے اختتام پر تھی، تو آج کم از کم پانچ جامعات دنیا کی 500 بہترین جامعات میں شامل ہوتیں، اور 15 جامعات ہزار بہترین میں آ چکی ہوتیں۔‘‘ انہوں نے تعلیم اور تحقیق کے معیار کو بہتر بنانے کی فوری ضرورت پر زور دیا اور کہا، ’’ایچ ای سی اور جامعات کو چاہئے کہ کوالٹی انہانسمنٹ سیلز (QECs) کو فعال کریں تاکہ وہ فیکلٹی کے ساتھ مل کر عالمی درجہ بندی بہتر بنانے کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد کر سکیں۔’’ سابق چیئرمین ایچ ای سی ڈاکٹر طارق بنوری نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو ’’کھوکھلا اور زوال پذیر’’ قرار دیا۔ ان کے مطابق، چند فعال جامعات، جیسے لمز، آغا خان یونیورسٹی، حبیب یونیورسٹی، نمل اور نسٹ کے علاوہ باقی جامعات معیاری تعلیم فراہم کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’حکومتوں نے گزشتہ 25 سال سے تعلیم کے شعبے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر بنوری نے بین الاقوامی درجہ بندی کے نظام کی ساکھ پر بھی سوالات اٹھائے اور کہا کہ یہ نظام اکثر ڈیٹا کی ہیرا پھیری، جھوٹے اعداد و شمار، اور مشکوک تحقیقی اشاعتوں پر انحصار کرنے والے اداروں کو انعام دیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ان درجہ بندیوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے حقیقی تعلیمی اصلاحات پر توجہ دینی چاہئے۔ سندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی رکن نادرہ پنجوانی نے تعلیمی زبوں حالی کی بنیادی وجوہات میں تحقیق پر کم سرمایہ کاری، صرف تدریس پر زور، عالمی روابط کی کمی، سیاسی مداخلت، ناقص طرزِ حکمرانی، اور بیوروکریسی کی سخت گرفت کو شامل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اعلیٰ تعلیم اور تحقیق پر اخراجات میں اضافہ کرنا ہوگا، معیاری تحقیقی اشاعتوں، پیٹنٹس اور معاشرتی ضروریات سے جڑی جدت کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جامعات کو خودمختاری دی جائے کہ وہ اپنا نصاب خود مرتب کریں، عالمی اداروں سے شراکت قائم کریں، اور میرٹ پر باصلاحیت اساتذہ بھرتی کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی سائنسدان اور محققین بیرون ملک بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں، لہٰذا انہیں پرکشش پیکجز کے ذریعے وطن واپس لانا مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طبی تحقیق، صحت عامہ، زراعت، موسمیاتی تحقیق، خلائی ٹیکنالوجی، آئی ٹی، مصنوعی ذہانت، اور نظری طبیعیات میں پاکستانی جامعات کی کامیابیوں کو اجاگر کر کے ملک کی عالمی ساکھ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ایچ ای سی کے بانی چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمٰن نے فنڈنگ کی شدید کمی کو اس بحران کی بنیادی وجہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 6؍ برسوں سے جامعات کا آپریٹنگ بجٹ 66؍ ارب روپے پر منجمد ہے، حالانکہ اس دوران اخراجات تین گنا بڑھ چکے ہیں۔ ان کے مطابق، اس مالی جمود نے جامعات کو معمولی درجے کے کالجوں میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں نہ تحقیق کیلئے سامان خریدا جا سکتا ہے، نہ کیمیکل، نہ آلات۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹینیور ٹریک سسٹم (TTS)، جس کے تحت تحقیق کو فروغ دینے کیلئے کارکردگی کی بنیاد پر اعلیٰ تنخواہیں دی جاتی تھیں، ختم ہو چکا ہے۔ ایچ ای سی کی ایک تفصیلی تحقیق کے مطابق، ٹی ٹی ایس کے اساتذہ بی پی ایس اساتذہ کے مقابلے میں تحقیق میں 8؍ گنا زیادہ مؤثر تھے۔ انہوں نے وزارتِ منصوبہ بندی اور وزارتِ خزانہ کو جامعات کے زوال کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ سابق چیئرمین پنجاب ہائر ایجوکیشن کمیشن، ڈاکٹر نظام الدین نے کہا کہ عالمی رینکنگ دراصل ایک کاروبار ہے، جس کیلئے مکمل ڈیٹا کی فراہمی، بین الاقوامی سطح پر مستقل روابط، اور پی ایچ ڈی فیکلٹی کی موجودگی ضروری ہے۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ جن کالجوں کو یونیورسٹی کا درجہ دیا گیا، وہ آج بھی مطلوبہ تعلیمی ماحول اور معیار سے محروم ہیں۔ پاکستان بین الاقوامی فیکلٹی اور طلبہ کو متوجہ کر پاتا ہے اور نہ تحقیق کے مطلوبہ اہداف حاصل کر رہا ہے۔ اپنے دور میں انہوں نے پنجاب کی 10؍ جامعات کو رینکنگ میں شامل کرنے کیلئے خصوصی اقدامات اور فنڈنگ کی سفارش کی تھی، لیکن اس پر کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔ تمام ماہرین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ فوری اور سنجیدہ اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ان اصلاحات میں فنڈنگ میں خاطر خواہ اضافہ، تحقیق دوست پالیسیوں کی بحالی، تدریسی خودمختاری، بین الاقوامی روابط، اور مقدار کے بجائے معیار پر مبنی نظامِ تعلیم کی طرف منتقلی شامل ہے۔ اگر پاکستان عالمی تعلیمی برادری میں اپنی شناخت اور حیثیت برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے فوری سرمایہ کاری اور دانشمندانہ اصلاحات کی راہ اختیار کرنا ہوگی، بصورت دیگر وہ مزید تنہائی اور عالمی علمی معیشت میں پیچھے رہ جانے کے خطرے سے دوچار ہو جائے گا۔
اہم خبریں سے مزید