• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا ’خبر‘ جاں کَنی کے مرحلے سے دوچار ہے؟ کیا یقین واعتبار سے محروم ہوکر وہ جنسِ خس وخاشاک کی طرح بے وقعت و بے وقار ہوجانے کو ہے؟ بظاہر کچھ ایسا ہی لگتا ہے اور یہ اُفتاد کی گھڑی ہے۔

’خبر‘ اُس وقت بھی سچی اور درست ہونے کے سبب معتبر تھی جب وہ صدیوں قبل گھوڑوں، خچروں اور اُونٹوں پر سفر کرتی تھی۔ اُس وقت بھی ’خبر ‘کے سچ یا جھوٹ کو پَرکھنے کے پیمانے موجود تھے۔ اَب زمانہ برق رفتار ہوچلا ہے یا شاید ٹیکنالوجی میں ہر آن آتی جدّت کیلئے برق سے بھی زیادہ کسی تیز پا پیمانۂِ رفتار کی ضرورت ہو۔ اَب تو وقوع پذیر یا تشکیل پاتی ’خبر‘ براہِ راست دیکھی اور سُنی جاسکتی ہے۔ ایسا نہ ہو تو بھی وہ چند لمحوں میں کرۂِ ارضی کے ایک گوشے سے دوسرے گوشے تک پہنچ جاتی ہے۔ صدیوں کا سفر طے کرنے اور نئے رنگ روپ کے باوجود آج بھی ’خبر‘ کی ’صداقت‘ ہی اُس کاسرمایہ تفاخر ہے۔

اگر 182میں، ہری ہروت کے زیرِسرپرستی اور مُنشی سدا سُکھ کی زیرِ ادارت جاری ہونے والے اردو اخبار ’’جامِ جہاں نما‘‘ کو برّصغیر پاک وہند کا پہلا اردو اخبار مان لیا جائے تو اُردو صحافت دو سوسال سے زائد کا سفر طے کرچکی ہے۔ اس طویل عرصے کے دوران میں اخبارات کے ملبُوس وپیرہن، اندازواطوار، رنگ و آہنگ اور موضوع واسلوب میں اَن گنت تبدیلیاں آئیں لیکن دو اخباری اداروں کو صحافت کی روح اور سانس کا درجہ دیا جاسکتا ہے۔ ایک مدیر یا ایڈیٹر اور دوسرا رپورٹر۔ میں جانتا ہوں کہ صبح دَم ہمارے ہاتھوں میں پہنچنے والے اخبار میں کتنے ہی گمنام یا پسِ پردہ کام کرنے والے کارکنوں کا خون پسینہ بھی شامل ہوتا ہے۔ اُن کی محنت وریاضت کا درجہ کسی طور کم نہیں۔ اِس صنعت سے جڑا ایک لازوال کردار ’ہاکر‘ بھی ہے جو بطور خود ایک ’ادارے‘ کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ ’ڈاکیا‘ تو اللہ کو پیارا ہوگیا۔ دیکھیے زقندیں بھرتے وقت کے اِس سیلِ تُند رَو میں ’ہاکر‘ کب تک خود کو بچا پاتا ہے۔

اخبار کی زینت ہمیشہ خبر ہی رہی۔ اِس کا بانکپن بھی اُس کا غازۂِ عارض ورُخسار بھی۔ ’خبر‘ ہی اخبار کی اثرپذیری اور رعب ودبدبہ کی علامت رہی اور ’خبر‘ کی تمام تر ذمہ داری کا بوجھ ’رپورٹر‘ کے سر رہا۔ رپورٹر ہی ہے جو خبر کی تلاش کیلئے بھاگ دوڑ کرتا ، دِن اور رات کی تمیز کئے بغیر ’خبر‘ کی ٹوہ میں لگا رہتا، اقتدار کی پُراسرار خبرگاہوں میں بھٹکتا، مزدور اور محنت کش کی طرح خبروں کی کان میں پہروں کان کنی کرتا، اِس کے درست ہونے کے لئے تحقیق وتصدیق کے جانکاہ مرحلوں سے گزرتا اور پھر کہیں اللہ کا نام لے کر، دھڑکتے دِل کے ساتھ خبر فائل کر دیتا ہے۔ یہ مراحل، سنگلاخ چٹانوں سے جُوئے شِیر بہا لانے سے کم نہیں۔ امیر مینائی نے کہا تھا

خُشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے

تب نظر آتی ہے اِک مصرعہِ تَر کی صورت

خبر کی تلاش اور اُس کی سچائی کا یقین اچھے رپورٹر کی پیشہ ورانہ اخلاقیات کا مرکز ومحور ہوتا ہے۔ ’خبر‘ اُس کی جان بھی ہوتی ہے، پہچان بھی اور مان بھی۔ سو وہ ’خبر‘ ہی کے حوالے سے جانا، پہچانا اور مانا جاتا ہے۔ خبر کی تلاش میں ناکامی کا دِن اُس کے لئے ’یوم سوگ‘ ہوتا ہے اور خبر کے غلط نکلنے کو وہ ماتھے کا ایسا بدنُما داغ سمجھتا ہے کہ ساتھیوں کا سامنا کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ ’مُدیر‘ کا ادارہ اور ’ادارتی نظم‘ اتنا قوی تھا کہ کوئی غیرمصدقہ خبر اُس کی چھلنی سے نکل نہیں پاتی تھی۔ اخباری صحافت سے ٹیلی ویژن کے جہانِ رنگ وبُو میں آنکلنے والے کُہنہ مشق رپورٹرز یا صحافی، آج بھی خبر کے بارے میں خاصی حسّاسیّت رکھتے ہیں گو اُنہیں پرانا، فرسودہ اور ازکار رفتہ خیال کیاجاتا ہے جو وقت کے تیز پا قافلے کی گَرد بَن چکے ہیں، لیکن وہ اپنی عادت سے مجبور ہیں۔ ’’چھُٹتی نہیں ہے مُنہ سے یہ کافر لگی ہوئی۔‘‘

میں جس اخباری صحافت کی بات کر رہا ہوں، وہ بھی اب عہدِ رفتہ کی کہانی لگتی ہے۔ گو آج بھی مستند اخبارات میں ایک طرح کا ’ادارتی نظم‘ موجود ہے اور ’رپورٹنگ‘ کا معیار بھی، لیکن اس نظم کی دھار پہلے جیسی تندوتیز نہیں رہی۔ جو کبھی شدید طور پر ’ناخُوب‘ تھا اَب ’خوب نہ سہی‘ ’گوارا‘ ہوتا جا رہا ہے۔ ریڈیو کے ادارے نے بھی ’خبر‘ کی اہمیت کو کم نہ ہونے دیا اور صحتِ زبان کے حوالے سے بھی نہایت اعلیٰ معیار قائم کیا۔ زیڈ۔اے۔ بخاری کے عہد میں تلفظ اور زبان کے حوالے سے جو کڑے پیمانے وضع ہوئے وہ دیر تک قائم رہے۔ اَب ٹی۔وی بھی ’میری مرضی‘ کے اصول پر کارفرما ہے۔ اگر اخبارات، ٹیلی ویژن اور ریڈیو جیسے ادارے بھی اَنٹ شَنٹ لکھنے اور بولنے لگیں گے تو ’اردو‘ کا کیا بنے گا؟

اور اب ’’سوشل میڈیا‘‘ نے ایک بڑے ریکٹر اسکیل کے زلزلے کی طرح سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا ہے۔ صحتِ زبان اور تلفظ جیسے خرخشوں کو تو جانے دیجئے، ’ خبر‘ تک کا چہرہ بُری طرح مسخ کر دیاگیا ہے۔ ہر قسم کی حدود وقیود سے بے نیازی اور سچ جھوٹ کی تمیز کی بے لحاظی اس کا منشورِ اولیٰ بھی ہے اور ہتھیار بھی۔ جس ’خبر‘ کو جنوں شعار رپورٹر، کوہِ قاف کی شہزادی جان کر، کٹھن راستوں پر اُس کی تلاش کو نکلتے تھے، وہ اب ’’اُس بازار‘‘ کی بیسوا بنا دی گئی۔ خبر کی تحریم وتکریم، اُس پر اعتبار اور یقین میں ہے۔ جوں ہی اُس کے چہرے پر شک، جھوٹ اور بے یقینی کی ہلکی سی گرد پڑی، وہ اپنی عفّت وعصمت گنوا بیٹھی۔ سوشل میڈیا کے شہ سوار گئے عہد کے اُن رپورٹرز کی مشقت کو کارِحماقت خیال کرتے ہیں جن کے لئے خبرتلاشنا جان جوکھوں کا کام تھا۔ اس طرح کی سخت کوشی اور پتّہ ماری سے گزیر کرتے ہوئے وہ ’’خبر تلاشنے‘‘ کے بجائے ’’خبرتراشنے‘‘ کے ہُنر میں طاق ہونے کو زیادہ سود مند خیال کرتے ہیں۔ جو اس فن کا جتنا بڑا اُستاد یا فن کار ہے، وہ اپنے قدکاٹھ کے اعتبار سے اُتنی ہی بے بال وپَر خبر تراشتا ہے۔ ’’خبریت‘‘ سے محروم اس آمیزے میں عام آدمی کے سطحی محسوسات کی تسکین کا وافر سامان موجود ہوتا ہے۔ سو گلشن کا کاروبار کبھی مندے کا شکار نہیں ہوتا، ہمیشہ عروج پہ رہتا ہے۔ جھوٹ سے لذت کشید کرنے والے بازارِ حصص میں اس کی قیمت کبھی نہیں گرتی۔

میں سوشل میڈیا کی اہمیت اور افادیت سے انکاری نہیں۔ خود اس سے استفادہ بھی کرتا ہوں۔ رہنمائی بھی لیتا ہوں لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اِس طفلِ خودمعاملہ نے ’خبر‘ کی چادرِ عصمت کی دھجیاں اُڑا دی ہیں۔

کچھ دِن قبل صدر آصف علی زرداری کی رخصتی اوراشارے کنایے میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ایوانِ صدارت کا رُخ کرنے کی خبر نے، ہلچل مچا دی۔حکومتی حلقوں سے اِس کی واضح تردید بلکہ کئی تردیدیں جاری ہوگئیں لیکن اِس طرح کی امر بیلیں آسانی سے نہیں مرتیں۔ ایسی خبروں کے سیاسی مضمرات اِس وقت میرا موضوع نہیں۔ میرے لئے تشویش کا سبب یہ ہے کہ کیا خبر کی بے اعتباری ، بے یقینی اور بے چہرگی کا سیلِ بلا روایتی اور کسی حد تک مستند میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے کو ہے؟ کیا صدیوں کے سفر کے بعد آج ’خبر‘ جاں کنی کے مرحلے سے دوچار ہے؟ اگر ایسا ہے تو یہ واقعی اُفتاد کی گھڑی ہے۔

تازہ ترین