• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہنے کو تو برطانوی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا یاسینٹ کو ’’دارُالامرا‘ کہاجاتا ہے لیکن یہ جھُومر اپنے حقیقی معنی ومفہوم اور بھرپور صداقت کیساتھ صرف ہماری سینٹ کی پیشانی پرہی سجتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے ترجمان حافظ حمداللہ نے ہفتہ بھر قبل انکشاف کیا تھا کہ خیبرپختون خوا میں سینٹ کا رُکن بننے کیلئے ایک ووٹ کی قیمت بائیس کروڑ روپے تک پہنچ چکی ہے۔ فرمایا کہ ’’گرمیِٔ بازار کا یہی عالم رہا تو ایک ثابت قدم رُکنِ صوبائی اسمبلی اپنے ووٹ کے عوض چالیس کروڑ روپے بھی وصول کرسکتا ہے۔‘‘ پنجاب اور سندھ میں اِس طرح کی رونقِ بازار کم کم ہی دکھائی دیتی ہے لیکن خیبرپختون خوا میں سینٹ کے ہر انتخابی عمل کے دوران ایسا حشربپا ہوتا ہے کہ شاید ہی اُس کی نظیر کسی اور ملک میں ملے۔ دوسرا نمبر بلوچستان کا ہے جہاں عمومی پسماندگی کے باوصف، ووٹ کا نرخ ہوش رُبا حد تک بلند ہوتا ہے۔ 2021ءکے سینٹ الیکشن میں ووٹوں کی منڈی کا ذکر کرتے ہوئے اُس وقت کے وزیراعظم، عمران خان نے بتایا تھا کہ ’’بلوچستان میں ایک ووٹ کا نرخ ستّر کروڑ روپے تک پہنچ گیا ہے۔‘‘ یہ وہ انتخابات تھے جب مجھے بھی پاکستانی ’’دارُالامرا‘‘ کا رُکن منتخب ہونے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ میں کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے لاہور پہنچا تو معلوم ہوا کہ انتخابی اخراجات کیلئے ایک خصوصی بینک اکائونٹ کھولنا بھی ضروری ہے۔ میری جیب میں کل تیس ہزار روپے تھے۔ پچیس ہزار روپے سے انتخابی اخراجات کا اکائونٹ کھول لیا۔ کاغذات جمع کرانے گیا تو جانچ پڑتال کرنیوالے ایک معزز رُکن نے مسکراتے ہوئے پوچھا ’’آپ پچیس ہزار روپے سے سینٹ کا الیکشن لڑ لیں گے؟‘‘ میں نے دست بستہ عرض کیا ’’جی کوشش کروں گا۔‘‘ ٹی وی پر ستّر کروڑ کی خبر سُن کر بیگم نے بھی طنز بھرے لہجے میں مجھ سے پوچھا تھا ’’آپ کے پاس ہیں ستّرکروڑ روپے؟‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا تھا ’’یہ تو صرف ایک ووٹ کیلئے درکار ہیں۔ ایسے کئی ووٹ لینا ہونگے۔‘‘جب مسلم لیگ (ن) کے دوستوں نے بتایا کہ میرے حصّے میں آنے والے پچاس سے زائد ارکان ِاسمبلی کو کھانے پر جمع کرنا ہوگا تاکہ آپ کی اُن سے ملاقات ہوجائے تو میری ریڑھ کی ہڈی میں برفیلی سنسنی سی دوڑ گئی۔ میں دیر تک ریاضی کے فارمولوں سے کھیلتا اور اندازہ لگاتا رہا کہ اِس کھانے پر کتنا خرچ آئے گا؟ وہ تو اچھا ہوا کہ تمام جماعتوں کی مفاہمت سے گیارہ ارکان بغیر مقابلے کے منتخب قرار پائے۔ کھانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ سینٹ کے انتخابات اور مویشی منڈی جیسا مول تول نئی بات نہیں۔ یہ صرف پاکستان تک محدود بھی نہیں۔ قدیم جمہوریت، امریکہ کو بھی اِس سے پالا پڑا۔ کوئی سوا صدی تک امریکی سینٹ کے انتخابات، ریاستی اسمبلیوں کے ذریعے ہوتے رہے۔ پھر وہاں بھی احساس ہوا کہ کرپشن نے راہ پالی ہے اور پیسہ بولنے لگا ہے۔ چنانچہ آج سے ایک سو بارہ سال قبل، 1913ءمیں، سترھویں آئینی ترمیم کے ذریعے پرانا طریقۂِ کار بدل دیا گیا۔ اب پچاس امریکی ریاستیں، رقبے اور آبادی سے قطع نظر، ایک سو ارکان پر مشتمل سینٹ کے دو دو ارکان براہِ راست عوامی انتخابات کے ذریعے منتخب کرتی ہیں۔ نہ رہا بانس نہ بجے بانسری۔ لگ بھگ نصف صدی تک بھارت میں، راجیہ سبھا (سینٹ) کے انتخابات بدعنوانی سے پاک رہے۔ جماعتی نظم وضبط کی چُولیں سختی سے کسی رہیں۔ نتائج، متعلقہ ریاستی (صوبائی) اسمبلی میں جماعتی قوت کے عین مطابق سامنے آتے۔ 1998ءمیں پہلی بار ایک انہونی ہوئی۔ مہاراشٹر کی صوبائی اسمبلی سے کانگریس نے، اپنی عددی قوت کے پیش نظر دو امیدوار نامزد کئے جن کا انتخاب یقینی تھا لیکن نتائج نے ایک کہرام بپا کر دیا۔ سونیا گاندھی کے قریب سمجھے جانے والے نامزد کانگریسی امیدوار، رام پردھان ہار گئے۔ یہ معرکہ ایک متموّل آزاد امیدوار نے جیت لیا۔ خطرے کی گھنٹیاں بج اٹھیں۔ پارلیمنٹ کی ایک خصوصی کمیٹی نے رپورٹ دی کہ ’’مہاراشٹر ریاستی اسمبلی میں، راجیہ سبھا کے انتخابات کیلئے پیسے اور قوتِ بازو (Money and Muscle) نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے۔‘‘ کمیٹی نے خفیہ ووٹنگ کے بجائے اوپن ووٹنگ کا طریقۂِ کاربھی تجویز کیا۔ 2001ءمیں وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے دور میں اِس مقصد کیلئے حکومت مسودۂِ قانون پارلیمنٹ میں لائی تو ’ووٹ کی رازداری‘ پر ضرب لگنے کا واویلا بپا ہوا۔ کلدیپ نائر نے آئینی بینچ میں پٹیشن دائر کر دی۔ ٹھوس دلائل کی بنیاد پر یہ درخواست مسترد کر دی گئی۔ 2003ءمیں پارلیمنٹ نے نیا قانون منظور کرلیا۔ اِس قانون کے تحت، انتخابی عمل کے دوران، پریذائیڈنگ اور پولنگ افسران کے ساتھ ایوان میں موجود، ہر سیاسی جماعت کا نامزد عہدیدار (پولنگ ایجنٹ) بھی بیٹھتا ہے۔ ووٹر پر لازم ہے کہ وہ بیلٹ پیپر پر مخصوص نشان لگانے کے بعد اُسے اپنی جماعت کے پولنگ ایجنٹ کو دکھائے۔ اگر وہ دکھانے سے انکاری ہو یا نشان اپنی جماعت کے امیدوار کے بجائے کسی اور امیدوار کے حق میں لگا دے تو پولنگ ایجنٹ کی نشاندہی پر، پریذائیڈنگ افسر، یہ بیلٹ پیپر، بکس میں نہیں ڈالنے دیگا۔ ’’مسترد‘‘ کی مہر لگا کر ایک مخصوص ٹوکری میں پھینک دیگا۔ دو سال پہلے، 2023ءمیں ایک معروف این۔جی۔او ’’لوک پر ہاری‘‘ نے ’رازداری‘ (Secrecy) کے آئینی تقاضے کے نام پر یہ قانون سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ فل بینچ نے طویل سماعت کے بعد، درخواست مسترد کرتے ہوئے کمال کے جملے لکھے۔ کہا ’’آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لئے ’ووٹ کی رازداری‘ نہایت اہم اصول ہے لیکن اعلیٰ تر اصول یہ بھی ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ کے ساتھ ساتھ انتخابات کی پاکیزگی (Purity) کو بھی برقرار رکھا جائے۔ اگر ووٹ کی رازداری کرپشن کا سرچشمہ بن جائے تو سورج کی دمکتی روشنی جیسی صداقت اور شفافیت ہی میں اتنی قوت ہوتی ہے کہ وہ اِس کرپشن کا ازالہ کرسکے۔‘‘

ہمارے ہاں ’گھوڑا فروشی‘ اور ’گھوڑا خریدی‘ کا کھیل برسوں سے جاری ہے۔ ہر تین سال بعد یہ میلہ سجتا ہے۔ مارچ 2027ءمیں نصف سینٹ گھر چلی جائے گی، نصف آئندہ چھ برس کے لئے منتخب ہوگی۔ پھر سے بولیاں لگیں گی، ’نرخ بالا کن‘ کے نعرے گونجیں گے، گاہک اشرفیاں اچھالتے منڈیوں کا رُخ کرینگے۔ ایک بار پھر ووٹ کی بے توقیری اور سینٹ کی بے حُرمتی کا ماتم ہوگا لیکن اصلاح احوال کی کوئی سبیل شاید ہی نکلے۔ یہ کالم آپ کی نظر سے گزرنے تلک، خیبرپختون خوا میں سینٹ کا انتخاب تمام ہوچکا ہو گا۔ میں اِس وقت نتائج کی پیش بینی تو نہیں کرسکتا لیکن اتنی بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اِن نتائج کے سبب ’ہمارا دارُالامرا‘ پہلے سے کہیں زیادہ امیر اور تونگر ہو جائیگا۔ اِسکی پیشانی پر جھومتے جھُومر میں کئی نئے تابدار نگینے آنکھوں کو خیرہ کر رہے ہوں گے۔2021ء میں، سینٹ کا رُکن بننے کے بعد مجھے الیکشن کمیشن کی طرف سے مِلا ایک پروفارما پُر کرناپڑا جس میں بتانا تھا کہ میں نے الیکشن میں کتنی رقم خرچ کی۔ میں نے بہت سوچا کہ کہیں کچھ خرچہ آیا ہو۔ کچھ یاد نہ آیا تو مقررہ خانے میں ’صفر‘ لکھ دیا۔ لاہور کےبینک میں جمع کرائے گئے پچیس ہزار روپے، جبری بینک کٹوتیوں کے چَرکے کھاتے کھاتے شاید چار پانچ ہزار روپے رہ گئے ہوں۔ وہ بھی غیرمستعمل کھاتہ ہونے کے باعث منجمد ہوچکے ہونگے لیکن بیگم آج بھی، مہینے میں ایک دو بار ضرور تقاضا کرتی ہیں ’’وہ پچیس ہزار روپے تو واپس لائیں۔‘‘ اُنہیں کیسے سمجھائوں کہ میں جس ’دارُالامراء‘ میں بیٹھتا ہوں، اِس کیلئے پچیس ہزار روپے کی قدر و قیمت کیا ہے؟

تازہ ترین