اسلام آباد (ایجنسیاں) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی صحت، رہائی اور وطن واپسی سے متعلق کیس میں رپورٹ پیش نہ کرنے پر وفاقی حکومت کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے وزیراعظم اور تمام وزراء سے دو ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عافیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں، اپیل سپریم کورٹ میں مقرر ہے، کہا تھا کہ رپورٹ نہ آئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کرونگا، 26ویں آئینی ترمیم کے بعد سے ڈیمولیشن سکواڈکو اس ہائیکورٹ میں لایا گیا، ہم نے انصاف کے ستونوں پر ایک کے بعد ایک حملہ دیکھا، ان حملوں نے انصاف کے نظام کو بار بار زخمی کیا اور اسے تقریبا آخری سانسوں تک پہنچا دیا، عدالتی اختیار کا استعمال جہاں تک ممکن ہوا عدلیہ کی عزت اور ہائیکورٹ کے وقار کو برقرار رکھنے کیلئے کرتا رہوں گا، نظام انصاف پر حملوں کی آج ایک اور مثال سامنے آئی، ہائیکورٹ کے ایک جج کے ذریعے انصاف کی فراہمی کو چیف جسٹس کے دفتر کے زیرِ انتظام ہفتہ وار روسٹر کے ذریعے کنٹرول کیا گیا۔ جسٹس سردار اسحاق نے کہا کہ چھٹیاں ختم ہونے کے بعد پہلے ورکنگ ڈے پر کیس کی آئندہ سماعت ہوگی، اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج کا روسٹر چیف جسٹس آفس ہینڈل کرتا ہے، حکومت نے سپریم کورٹ میں میرے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی ہوئی ہے، جج اگر چاہے بھی تو چھٹیوں میں کام نہیں کرسکتا۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ میری چھٹیاں آج سے شروع ہونی تھیں، میں نے فوزیہ صدیقی کیس دیگر کیسز کے ساتھ آج مقرر کیا تھا، مجھے جمعرات کو بتایا گیا کہ کازلسٹ جاری نہیں ہوگی جب تک کازلسٹ میں تبدیلی نہیں کی جاتی، میں نے پرسنل سیکرٹری سے کہا کہ کازلسٹ کے حوالے سے چیف جسٹس کو درخواست لکھو۔انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو تیس سیکنڈ بھی درخواست پر دستخط کرنے کیلئے نہیں ملے، ماضی میں ججز کا روسٹر مخصوص کیسز کے فیصلوں کیلئے استعمال ہو چکا ہے، فوزیہ صدیقی پاکستان کی بیٹی ہیں، اپیل سپریم کورٹ میں مقرر ہے، جج چھٹی کے دن عدالت میں انصاف فراہم کرنے کے لیے بیٹھنا چاہتا ہے۔جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے ریمارکس دیئے کہ ایک بار پھر ایڈمنسٹریٹیو پاور کو جوڈیشل پاور کیلئے استعمال کیا گیا، میں انصاف کو شکست کا سامنا نہیں کرنے دوں گا، ہائی کورٹ کی عزت کو برقرار رکھنے کے لیے میں اپنی جوڈیشل پاورز کا استعمال کروں گا، روسٹر تبدیل کرنے کے حوالے سے پرسنل سیکرٹری نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ میں نے پرسنل سیکرٹری کو کہا چیف جسٹس کو خط بھیج دو کیونکہ آج چند کیسز مقرر تھے، فوزیہ صدیقی کا کیس الگ نوعیت کاہے، میں نے کہا تھا رپورٹ نہ آئی تو توہین عدالت کی کارروائی شروع کروں گا۔