لندن (مرتضیٰ علی شاہ)پاکستان فوج کے سابق سینئر افسر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر نے برطانیہ کی ہائی کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ میجر (ر) عادل راجہ کی جانب سے برطانیہ کے دائرہ اختیار سے ان پر لگائے گئے الزامات کے بعد انہیں اور ان کے اہل خانہ کو جان سے مارنے کی دھمکیوں، ہراسانی، گالی گلوچ اور رازداری کی شدید خلاف ورزی کا سامنا کرنا پڑا۔
بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر یہ بیان اس ہتکِ عزت کے مقدمے میں دے رہے تھے جو انہوں نے میجر (ر) عادل راجہ کے خلاف تقریباً درجن بھر یوٹیوب، ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اور فیس بک پر شائع شدہ مواد کی بنیاد پر دائر کیا ہے۔
مقدمے کے آغاز پر راشد نصیر سے عادل راجہ کے وکیل بیرسٹر سائمن ہارڈنگ نے جرح کی۔
عادل راجہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، جبکہ ان کے اہم گواہ سابق سربراہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ (ARU) شہزاد اکبر عدالت میں پیش ہوئے، اور سید اکبر حسین نے امریکا سے آن لائن شرکت کی۔
بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر نے کہا کہ میرے بارے میں جھوٹے الزامات پھیلائے گئے، جنہوں نے مجھے اور میرے خاندان کو خطرے میں ڈال دیا۔ میری بیٹی کو کنگز کالج لندن سمیت دیگر معروف یونیورسٹیوں سے داخلے کی پیشکش ہوئی، لیکن عادل راجہ کی حرکتوں کے بعد میں نے اپنے بیٹے اور بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ میرے دوست اور رشتہ دار برطانیہ میں موجود ہیں، حتیٰ کہ انٹیلی جنس اداروں میں کام کرنے والے وہ افراد بھی جن کے ساتھ میں نے کام کیا۔ ان سب نے مجھ سے رابطہ کیا جب مدعا علیہ نے سوشل میڈیا پر میری کردار کشی شروع کی۔"جب وکیل دفاع بیرسٹر سائمن ہارڈنگ نے "شدید نقصان" کے حوالے سے پوچھا کہ کیا انہوں نے ان کالز یا پیغامات کے ثبوت پیش کیے جو انہیں برطانیہ سے موصول ہوئے، تو راشد نصیر نے کہا کہ انہوں نے اور ان کے اہل خانہ نے کئی کالز وصول کیں، لیکن وہ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو ممکنہ خطرات، گالی گلوچ اور سوشل میڈیا پر ٹرولنگ سے بچانے کے لیے ان کی تفصیلات دینا نہیں چاہتے۔
راشد نصیر نے عدالت کو بتایا کہ عادل راجہ نے میرے بیٹے اور خاندان کی تصاویر سوشل میڈیا پر شائع کیں، جس کے بعد ہراسانی اس حد تک بڑھ گئی کہ میں نے اپنے بچوں کو امریکی جامعات میں داخل کروانے کا فیصلہ کیا۔ ایک شخص، جس نے مجھ پر قاتلانہ حملہ کرنے کی کوشش کی، وہ عادل راجہ کا پیروکار تھا۔
گرفتاری کے بعد اس نے اعتراف کیا کہ وہ عادل راجہ کی پوسٹس سے متاثر ہو کر مجھے قتل کرنا چاہتا تھا۔ میرے بیٹے کی تصویر اور امریکی یونیورسٹی کا پتہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے بعد ایک ٹویٹ میں میرے بیٹے کے لیے موت کی دعا کی گئی۔"لندن ہائی کورٹ کے ڈپٹی جج رچرڈ سپیئرمین کے سی نے مقدمے کی سماعت کا آغاز بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر اور میجر (ر) عادل راجہ کے درمیان ہتک عزت کیس کی تفصیلات سے کرتے ہوئے یہ سوال اٹھایا کہ کیا راشد نصیر کے 2023 کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور دیگر الزامات کے سلسلے میں کوئی ثبوت یا معتبر ذرائع موجود ہیں۔یہ مقدمہ نو مختلف اشاعتوں پر مبنی ہے۔
اپریل 2024 میں عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ عادل راجہ نے جون 2022 میں بغیر کسی ثبوت کے 13 الزامات لگا کر بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی برطانوی قانون کے تحت ہتک عزت کی تھی۔بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر نے ان تمام الزامات کی سختی سے تردید کی ہے۔
سماعت کے دوران برطانوی پاکستانی کمیونٹی کے تقریباً 50 افراد عدالت میں موجود تھے، جس کے باعث عوام اور میڈیا کے لیے ایک اضافی کمرہ مختص کرنا پڑا تاکہ کارروائی کو دیکھا جا سکے۔