کراچی(سید محمد عسکری) جب پاکستان کا اعلیٰ تعلیم کا شعبہ، خاص طور پر سرکاری جامعات، شدید مالی بحران کا شکار ہے، اور کئی ادارے اپنے ریٹائرڈ ملازمین کو مکمل تنخواہیں اور پنشن ادا کرنے سے قاصر ہیں، ایسے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی جانب سے ایک حیران کن اور متنازعہ قدم اٹھایا گیا ہے۔ ایچ ای سی نے اپنے کنٹریکٹ ملازمین اور ان کے شریک حیات کے لیے ملازمت کے بعد بھی ہیلتھ بینیفٹس جاری رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔ ستیاب سرکاری دستاویزات کے مطابق، یہ فیصلہ ایچ ای سی کمیشن کے 44ویں اجلاس میں کیا گیا، جس کی صدارت موجودہ چیئرمین ڈاکٹر مختار احمد نے کی۔ اس فیصلے کے تحت ہیلتھ سہولیات اس وقت بھی فراہم کی جائیں گی جب متعلقہ ملازمین کا ایچ ای سی سے کنٹریکٹ ختم ہو چکا ہو گا۔ یہ پالیسی نہ صرف عام کنٹریکٹ ملازمین بلکہ چیئرمین اور ایگزیکٹو ڈائریکٹر جیسے اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران کو بھی شامل کرتی ہے۔ اس فیصلے پر تعلیمی حلقوں اور متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے، خاص طور پر اس وقت جب ملک بھر کی جامعات ہنگامی مالی امداد کے لیے مسلسل اپیلیں کر رہی ہیں۔ تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ عارضی ملازمین کو ملازمت کے بعد بھی سہولیات فراہم کرنا نہ صرف اخلاقی طور پر قابل اعتراض ہے بلکہ مالی طور پر بھی ناقابل برداشت ہے، جبکہ ایچ ای سی کا بنیادی مشن — یعنی جامعات کی مدد — بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ تعلیمی برادری کے متعدد افراد نے ایچ ای سی کی اس پالیسی پر شفافیت اور جوابدہی کا مطالبہ کیا ہے، اور متعلقہ نگرانی کے اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس فیصلے کے پیچھے موجود جواز کا سنجیدگی سے جائزہ لیں، کیونکہ اعلیٰ تعلیم کا شعبہ پہلے ہی سنگین مالی مسائل کا شکار ہے۔ جنگ نے ایچ ای سے کے ترجمان سے رابطہ کی کوشش کی اور میسج بھی کیا مگر جواب نہیں دیا گیا۔