کراچی (تحقیقاتی رپورٹ: اسد ابن حسن) پاکستان میں آئی ٹی کمپنیز کی آڑ میں کال سینٹرز پر چھاپوں میں تیزی کی وجہ سامنے آئی ہے۔ معتبر ذرائع نے انکشاف کیا کہ امریکی حکومت کو مسلسل اطلاعات موصول ہو رہی تھی کہ کال سینٹرز میں فراڈیے تین قسم کے فراڈ کر رہے ہیں جن میں حکومتی میڈیکل انشورنس پالیسی، ٹریڈ مارک رجسٹریشن پالیسی اور بینک کریڈٹ کارڈ جیسے گھپلے سرفہرست ہیں۔ گزشتہ ماہ فیڈرل بیورو آف انویسٹیگیشن (ایف بی آئی) کے ذیلی ادارے "وائٹ کالر کرائم انویسٹی گیشن ونگ" نے شکاگو اور الینوائس میں ہیلتھ کارڈ انشورنس پالیسی میں فراڈ کر کے حکومتی خزانے کو ساڑھے 14 ارب ڈالر کا نقصان پہنچانے والے 324 افراد کو گرفتار کر کے ان پر عدالتی کارروائی کا آغاز کیا۔ اس آپریشن کے بعد ایف بی آئی نے ایک پاکستانی ادارے کو معلومات فراہم کیں کہ مذکورہ بالا تین فراڈ میں ملوث تقریباً 15 بڑے کال سینٹرز جن میں سات کراچی میں، پانچ اسلام آباد میں اور تین لاہور میں واقع ہیں ان پر بڑے پیمانے پر فراڈ کے ذریعے امریکی حکومت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے اور ان کال سینٹرز کے خلاف جلد سے جلد فوری کارروائیاں کی جائیں، جس کے بعد مجبوراً این سی سی آئی اے نے اسلام آباد میں دو بڑے آپریشن کیے، فیصل آباد میں بھی ایک بڑا آپریشن ہوا جبکہ اسلام آباد میں ایک چوتھا آپریشن متنازع ہو گیا۔ پاکستانی ادارے کے علم میں یہ بات بھی آئی کہ گرفتار ملزمان سے برآمد قیمتی آئی فونز مبینہ طور پر ریکارڈ کا حصہ نہیں بنائے گئے۔ ان آپریشنز میں سینکڑوں غیر ملکی بھی پکڑے گئے جبکہ کراچی میں بھی ایک چھوٹا آپریشن کیا گیا۔ لاہور میں نشاندہی کے باوجود ایک بڑے کال سینٹر پر کوئی کارووائی نہیں کی گئی جس پر امریکی حکام میں سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ این سی سی آئی اے نے امریکی ایجنسی کو یقین دہانی کروائی ہے کہ دو تین ماہ کے اندر چند بڑے آپریشن بھی کیے جائیں گے۔ مگر ملک بھر کے سینکڑوں چھوٹے کال سینٹرز کے خلاف کارروائیاں، گرفتاریاں اور عدالتی کارروائیوں میں حصہ لینا افرادی قوت کی کمی کی وجہ سے ممکن نہیں۔ ایف بی آئی پاکستانی کارروائیوں پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہے اور روزانہ کی بنیادوں پر ایف بی آئی کے ذیلی ادارے میں رپورٹ تیار کی جا رہی ہے جس میں نشاندہی کی جاتی ہے کہ کن کن بڑے کال سینٹر سے کتنے کتنے حجم کے فراڈ کیے جا رہے ہیں اور یہ اطلاعات پاکستانی ادارے سے شیئر بھی کی جاتی ہیں۔