• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقدمہ آئی ایس آئی پر نہیں، برطانوی جج نے عادل راجہ کو بتادیا

لندن (مرتضیٰ علی شاہ)سابق پاکستانی فوجی میجر (ریٹائرڈ) عادل راجہ نے برطانیہ کی ہائی کورٹ کو بتایا ہے کہ ان کے دعوے اور سابق سیکٹر کمانڈر بریگیڈیئر (ریٹائرڈ) راشد نصیر کے بارے میں اشاعتیں عوامی مفاد میں تھیں جب کہ ٹرائل جج نے واضح کیا ہےکہ انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ دو افراد، یعنی عادل راجہ بمقابلہ راشد نصیر کا مقدمہ ہے۔عادل راجہ نے لندن ہائی کورٹ میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہو کر راشد نصیر کی طرف سے ان پر دائر ہتک عزت کے مقدمے کی تیسرے دن کی سماعت میں اپنا بیان جاری رکھا۔راشد نصیر کے وکیل اور لندن ہائی کورٹ کے ڈپٹی جج رچرڈ اسپیئرمن کے سی نے عادل راجہ سے ان کی صحافتی سرگرمیوں کے طریقہ کار اور ان نو اشاعتوں سے متعلق سوالات کیے جن پر راشد نصیر نے مقدمہ دائر کیا ہے۔ راجہ نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اس مقدمے کے لیے کوئی دستاویزی ثبوت فراہم نہیں کیا، لیکن انہوں نے اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے گمنام ذرائع پر انحصار کرتے ہیں، جو ان کے مطابق انٹیلی جنس سروسز اور حکومت میں اعلیٰ سطح پر موجود افراد ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بارہا بتایا کہ ان کی اشاعتیں عوامی مفاد میں تھیں اور انہوں نے سب کچھ شائع کرنے سے پہلے تصدیق اور جانچ پڑتال کی تھی۔جیسے جیسے مقدمہ تیسرے دن آگے بڑھا، لندن ہائی کورٹ کے ڈپٹی جج رچرڈ اسپیئرمن کے سی نے واضح کیا کہ جاری ہتک عزت کا مقدمہ دو افراد (راشد نصیر بمقابلہ عادل راجہ) کے درمیان ہے اور اس کا پاکستان کی انٹیلی جنس سروس انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، فوج یا حکومت کے مبینہ صحیح یا غلط اقدامات سے کوئی تعلق نہیں۔ جب عادل راجہ نے انتخابی دھاندلی، پاکستانی معاشرے کی پیچیدگیوں اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی بات کی، تو جج نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کیس پاکستان کے لیے کس قدر اہم ہے اور اس میں کتنے جذبات شامل ہیں، لیکن یہ مقدمہ پاکستانی سیاست کی "بڑی تصویر" پر بات کرکے نہیں جیتا جا سکتا کیونکہ الزامات دعویدار (راشد نصیر) سے متعلق مخصوص نوعیت کے ہیں۔عادل راجہ سے راشد نصیر کے وکیل ڈیوڈ لیمر نے تقریباً پورے دن جرح کی اور ان ٹویٹس، یوٹیوب اور فیس بک ویڈیوز کے بارے میں سوالات کیے جو انہوں نے شائع کی تھیں۔ اس مقدمے کے مرکز میں نو اشاعتیں ہیں۔ راجہ نے ان اشاعتوں میں راشد نصیر کے خلاف متعدد الزامات عائد کیے۔ ان الزامات میں شامل ہیں کہ راشد نصیر کو لاہور ہائی کورٹ پر مکمل کنٹرول حاصل تھا جس کے باعث پنجاب میں 2022 کے انتخابات نہیں ہو سکے۔انہوں نے آصف علی زرداری سے ملاقاتیں کیں تاکہ انتخابی دھاندلی پر بات ہو سکےوہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کے خلاف کام کر رہے تھے۔وہ فوجی اور انٹیلی جنس افسران کی طرف سے ترتیب دی گئی انتخابی دھاندلی کی ایک منظم اسکیم کا حصہ تھے۔وہ اپنے عہدے کا غلط استعمال کر رہے تھے۔وہ بھاری اور غیر حساب شدہ رقوم استعمال کر کے پی ڈی ایم کی جیت کو یقینی بنا رہے تھے۔وہ پی ٹی آئی کے حامیوں کو ہراساں کر رہے تھے۔وہ گناہ کر رہے تھے اور اپنی اخروی زندگی کو تباہ کر رہے تھے۔انہوں نے عادل راجہ کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کرایا تھا۔عادل راجہ نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے راشد نصیر کے بارے میں جو الزامات لگائے وہ حکومت اور انٹیلی جنس سروسز میں موجود باوثوق ذرائع نے انہیں دیے تھے، اور انہوں نے مواد شائع کرنے سے پہلے اس کی تصدیق اور جانچ کی تھی، اور ایک صحافی کی حیثیت سے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کی تھیں، اور ان کی تمام اشاعتیں عوامی مفاد میں تھیں۔جج نے عادل راجہ سے پوچھا کہ انہوں نے ان بیانات کو سوشل میڈیا پر شائع کرنے سے پہلے کون سے اقدامات کیے، ان کے ذرائع حاصل کرنے، تصدیق کرنے، جانچنے اور مستند بنانے کے کیا طریقے تھے – اور سب سے اہم یہ کہ آیا انہوں نے ان معلومات کا کوئی تحریری ریکارڈ رکھا یا نوٹس لیے۔عادل راجہ نے جواب دیا"میرے ذرائع یہاں (برطانیہ) اور پاکستان میں ہیں۔ میں ان کی حفاظت کے لیے تہہ در تہہ طریقہ کار استعمال کرتا ہوں۔ پاکستان سے معلومات یوکے میں موجود ʼلیئرزʼ کے ذریعے میرے پاس پہنچتی ہیں۔"انہوں نے کہا کہ وہ اپنے ذرائع کو ہراسانی سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں، کیونکہ وہ حکومت اور انٹیلی جنس کے اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز ہیں، اور ان کی شناخت ظاہر کرنے سے ان کے اغوا یا تشدد کا خدشہ ہے۔عادل راجہ نے جج کو اسکرین پر دو نوٹ بکس دکھائیں اور کہا کہ انہوں نے ذرائع سے موصولہ پیغامات کا تحریری ریکارڈ رکھا ہے، لیکن جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آیا جون 2022 میں کی گئی اشاعتوں سے متعلق ان کے پاس کوئی نوٹس ہیں، تو انہوں نے کہا کہ "مجھے نہیں لگتا کہ میرے پاس ایسے کوئی نوٹس ہیں۔"وکیل ڈیوڈ لیمر نے راجہ سے کہا کہ ان کے پیش کردہ پاکستان کے ارشد شریف قتل کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں یہ بات شامل نہیں کہ آئی ایس آئی اس قتل کے پیچھے تھی، تو راجہ نے کہا کہ اس رپورٹ میں واضح طور پر ان افراد کا ذکر ہے جو اس خفیہ ایجنسی سے وابستہ ہیں اور جنہوں نے مقتول صحافی کے خلاف مقدمہ درج کرانے میں مبینہ کردار ادا کیا۔راجہ سے یہ بھی پوچھا گیا کہ انہوں نے یہ دعویٰ کیوں کیا کہ پاکستانی انٹیلی جنس انہیں برطانیہ میں قتل کرنا چاہتی ہے، حالانکہ یوکے پولیس کی طرف سے دی گئی گواہی اور خط میں صرف ان کی جان کو خطرے کا ذکر تھا، کسی قتل کی سازش یا آئی ایس آئی کا ذکر نہیں تھا۔ راجہ نے کہا کہ اگرچہ پاکستانی خفیہ ایجنسی کا ذکر موجود نہیں، لیکن مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ کون مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔"وکیل نے کہا"یہ ایک اور مثال ہے کہ آپ مبالغہ آرائی کر رہے ہیں اور جھوٹے دعوے کر رہے ہیں۔ یہ کہنا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی اور فوج آپ کو قتل کرنا چاہتی ہے، بالکل جھوٹ ہے۔"عادل راجہ نے جواب دیا"کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں اپنے ذرائع گھڑ رہا ہوں؟ میں جو کچھ رپورٹ کرتا ہوں وہ پاکستان کی زمینی حقیقتوں پر مبنی ہوتا ہے۔ میری ساکھ میرے ذرائع کی سچائی پر ہے۔
اہم خبریں سے مزید