تحریر…شیخ الحدیث مولانا محمد حنیف جالندھری سیکریٹری جنرل وفاق المدارس العربیہ پاکستان
سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں ایک دینی مدرسہ میں کمسن طالبعلم پر جسمانی تشدد کے باعث اس کی المناک موت نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ واقعہ بذات خود انتہائی افسوسناک، تکلیف دہ اور انسانی، اخلاقی و دینی ہر زاویے سے قابلِ مذمت ہے۔ کسی بھی استاد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ تربیت کے نام پر کسی بچے پر ایسا جبر کرے جس سے اس کی جان ہی چلی جائے بلکہ تنبیہ کی شریعت نے جو حدود مقرر کی ہیں ان سے تجاوز کی کسی صورت گنجائش نہیں-وفاق المدارس العربیہ پاکستان چونکہ دینی مدارس کا سب سے بڑا اور نمائندہ بورڈ ہے اس لیے وفاق المدارس نے اس سانحے کا سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے بروقت، مؤثر اور ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ اس حوالے سے نہ صرف یہ کہ دو ٹوک موقف اور واضح بیانیہ جاری کیا گیا جس میں اس واقعہ کی مذمت اور اس میں ملوث عناصر کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا گیابلکہ عملی طور پر بھی متاثرہ مقام پر پہنچ کر ہمدردی، یکجہتی اور خیر خواہی پر مبنی امور سرانجام دیے گئے-وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی قیادت — شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم، راقم الحروف ناظم اعلیٰ وفاق المدارس محمد حنیف جالندھری اور ناظم خیبر پختونخوا مولانا حسین احمد — کی خصوصی ہدایت پر وفاق المدارس کے ایک نمائندہ وفد کو فوری طور پر خوازہ خیلہ روانہ کیا گیا۔اس وفد میں مولانا قاری محب اللہ صاحب(ڈویژنل و علاقائی معاون ناظم وفاق المدارس، مالاکنڈ ڈویژن) ، مولانا قاری محمد طاہر صاحب (رکن مجلسِ عاملہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان) اور محترم حاجی فہیم صاحب(مسؤول وفاق المدارس، اپر سوات) سمیت دیگر احباب شامل تھے-وفد نے متاثرہ مدرسے کا دورہ کیا، طلبہ و اساتذہ سے ملاقات کی، تعلیمی و انتظامی امور کا گہرائی سے جائزہ لیااور واضح طور پر اپنی تشویش، افسوس اور اصلاحی تنبیہ کا اظہار کیا۔ طلبہ کو تسلی دی گئی، ان کے والدین و سرپرستوں کو اعتماد میں لیا گیااور ہر ممکن اخلاقی و قانونی معاونت کا یقین دلایا گیا۔وفد نے بعد ازاں شہید طالب علم کے جنازے میں شرکت کی، مرحوم کے اہلِ خانہ سے تعزیت کی اور ان کے غم میں شریک ہوکر یہ باور کرایا کہ وفاق المدارس نہ صرف ان کے ساتھ کھڑا ہے بلکہ انصاف کی فراہمی تک ہر سطح پر ان کی مدد کرتا رہے گا۔ناظم خیبر پختونخوا مولانا حسین احمد نے بھی متاثرہ خاندان سے بذریعہ فون تفصیلی رابطہ کیا، تعزیت کی اور بھرپور تعاون کی یقین دہانی کروائی اور میں ذاتی طور پر بھی متعلقہ ذمہ داران سے مسلسل رابطے میں رہا-بلکہ مولانا حسین احمد نے تو خود بنفس نفیس سوات کا دورہ کیا،وہاں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے دینی مدارس کے تمام ذمہ داران کو جمع کیا،حسن اتفاق سے اسی دن جمعیت علماء اسلام کی ضلعی جماعت نے بھی ایک پروگرام رکھا ہوا تھا یوں دونوں پروگرام مشترکہ ہوئے بلکہ دینی مدارس کی تمام تنظیمات کو بھی مدعو کیا گیا تھا اس موقع پر میڈیا کو بھی تفصیلی بریفنگ دی گئی بعد ازاں مولانا حسین احمد اپنے رفقاء کے ہمراہ ڈپٹی کمشنر سوات اور دیگر حکومتی ذمہ داران سے بھی ملے اور ان کے سامنے اپنے اصولی اور دیرینہ موقف کا اعادہ کیا خاص طور پر بعض این جی اوز کے نمائندوں کی مدارس میں آکر مدارس کے خلاف پروپیگنڈہ مہم چلانے کی اطلاعات سے ضلعی انتظامیہ کو آگاہ کیا اور ایسے عناصر کے خلاف فوری ایکشن لینے کا مطالبہ کیا-حقیقت یہ ہے کہ اس واقعہ کے حوالے سے وفاق المدارس نے نہ صرف یہ کہ فوری ردعمل دیا بلکہ یہ وضاحت بھی کی کہ جس ادارے میں یہ واقعہ پیش آیا وہ وفاق المدارس کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہے-وفاق المدارس کے قائدین نے واضح کیا کہ اگر یہ مدرسہ وفاق سے رجسٹرڈ ہوتا تو ہم اپنے ضابطے کے مطابق اس کے خلاف فوری اور سخت تادیبی کارروائی کرتے۔یہ بات قابلِ اطمینان ہے کہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان گزشتہ کئی سالوں سے دینی مدارس میں جسمانی سزاؤں سے گریز کی تلقین کر رہا ہے-بلکہ کسی بھی مدرسہ سے تشدد کی شکایت ملنے کی صورت میں اس کے خلاف سخت انضباطی کارروائی کی جاتی ہے-ہم نے ہمیشہ یہ پیغام دیا ہے کہ دینی تعلیم کے لیے مدارس کا رخ کرنے والے مہمانان رسول اور کمسن بچوں کو ہرگز تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے-ہم اس موقع پر اپنے اس دیرینہ موقف کا نہ صرف یہ کہ اعادہ کرتے ہیں بلکہ اس حوالے سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مانیٹرنگ سسٹم کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کریں گے-سانحہ سوات کے بعد عوامی غم و غصے کے نتیجے میں جس طرح مدرسے کی عمارت کو نقصان پہنچایا گیا، اسے جلانے اور منہدم کرنے کی کوشش کی گئی، وہ ایک انتہائی افسوسناک اور غیر دانشمندانہ طرزِ عمل تھا۔ہم نے اس پر کھل کر یہ موقف اختیار کیا ہے کہ"ایک فرد کے جرم کی سزا مدرسہ کی بے جان عمارت کو نہ دی جائے۔ مدرسہ صدقات و خیرات سے بنی اجتماعی امانت ہے، اسے منہدم کرنا دینی و قانونی جرم ہے۔"یہی وجہ ہے کہ ہم نے تجویز دی کہ عمارت کو بچایا جائے، اہلِ علاقہ کی نگرانی میں اسے تعلیمی مقاصد کے لیے دوبارہ فعال کیا جائےاور نظم و نسق کو بہتر بناتے ہوئے دوبارہ شفاف طریقے سےتعلیم کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔اس واقعے کے بعد بعض حلقے جان بوجھ کر دینی مدارس کے خلاف منظم پروپیگنڈے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا پر گمراہ کن مہم، سیاسی ایوانوں میں تعصب پر مبنی بیانات اور والدین کو خوفزدہ کرنے کی کوششیں کسی طور قابلِ قبول نہیں۔یہ رویہ خود دینی مدارس کے اس عظیم اور وسیع نیٹ ورک کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے جو نہ صرف قوم کی دینی شناخت کا محافظ ہے بلکہ لاکھوں غریب بچوں کو مفت تعلیم، تربیت، خوراک، رہائش اور روحانی ماحول فراہم کر رہا ہے۔اس اہم موقع پر ہم حکومت، میڈیا، سول سوسائٹی اور تمام باشعور افراد سے یہ مطالبہ اور اپیل کرتے ہیں کہ:اصل مجرم کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے۔معاملے کو انفرادی جرم کی حیثیت سے دیکھا جائے، اجتماعی طور پر سب مدارس کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ مدارس کے نظام کو جدید، شفاف اور محفوظ بنانے کے لیے ریاست پاکستان کی طرف سے اخلاقی اور عملی تعاون فراہم کیا جائے، نہ کہ انہیں بدنام کر کے الگ تھلگ کیا جائے۔میڈیا ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اور واقعات کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش نہ کرےواضح رہے کہ مدارس ہمارے ہیں، قوم کی اساس ہیں، ان کی اصلاح سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ہم اپنی ذمہ داری نبھاتے رہیں گےاور دینی تعلیم کے اس قافلے کو ان شاء اللّٰہ کسی قیمت پر رکنے نہیں دیں گے۔