تحریر: جیانگ زائی دونگ
پاکستان میں چین کے سفیر
اکتوبر 1971 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 26ویںاجلاس میں،پاکستان اور 22دیگر ممالک کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا۔ قرارداد نمبر2758میں فیصلہ کیا گیا کہ "اقوام متحدہ میں عوامی جمہوریہ چین کے تمام قانونی حقوق بحال کیے جائیں اور چین کی حکومت کے نمائندوں کو چین کے واحد قانونی نمائندوں کے طور پر تسلیم کیا جائے ،اور’’فوری طور پر تائیوان انتظامیہ کے نمائندوں کو اقوام متحدہ اور اس سے منسلک تمام اداروں سے نکالا جائے‘‘۔ اس قرارداد نے اقوام متحدہ میں چین کی نمائندگی کے سیاسی اور قانونی طریقہ کار سے متعلق امور کو ہمیشہ کے لیے طے کیا، اور واضح کیا کہ چین کی اقوام متحدہ میں صرف ایک نشست ہے، لہٰذا "دو چین" یا "ایک چین، ایک تائیوان" ناقابل قبول ہے۔ قرارداد نمبر 2758ایک واضح اصول پر مبنی ہے کہ دنیا میں صرف ایک چین ہے، تائیوان چین کا ناقابلِ تقسیم حصہ ہے، اور عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ہی پورے چین کی واحد قانونی نمائندہ ہے۔
حال ہی میں ،بعض عناصر جغرافیائی سیاسی مفادات کے تحت قرارداد نمبر 2758کو بگاڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، اور یہ غلط فہمی پھیلا رہے ہیں کہ ’’یہ قرارداد تائیوان کی قانونی حیثیت یا خودمختاری کو واضح نہیں کرتی۔‘‘ یہ سراسر جھوٹ ہے، جس کا مقصد ’’ایک چین کے اصول‘‘ کو نقصان پہنچانا ہے۔ یہ تائیوان کی علیحدگی کی حمایت اور چین کے داخلی معاملات میں مداخلت ہے۔یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظام اور ایشیا پیسیفک خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ میں اپنے پاکستانی دوستوں کو بنیادی حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم قرارداد نمبر2758کے معنی و مفہوم میں کسی بھی بگاڑ کی کوشش کی مخالفت کر سکیں۔
تائیوان ہمیشہ سے چین کا ایک حصہ رہا ہے۔یہ ایک تاریخی حقیقت، عالمی اتفاقِ رائے، اور قرارداد نمبر2758کی منظوری کی بنیادی سیاسی شرط ہے۔ 1895میں جاپان نے چین کے چھنگ شاہی خاندان پر حملہ کر کے تائیوان کو اپنے قبضے میں لے لیا۔ 1945میں چین کی جاپان کی جارحیت کے خلاف جنگ میں فتح کے بعد، تائیوان چین کی آغوش میں واپس کر دیا گیا۔ 1943کا قاہرہ اعلامیہ اور 1945کے پوسٹڈم اعلامیے میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا کہ جاپان نے تائیوان کو چین سے چھین لیا اور اسے چین کو واپس کرنا چاہیے۔ جاپان نے ہتھیار ڈالنے کے معاہدے میںیہ وعدہ کیا کہ وہ درست طور پر پوسٹڈم اعلامیےکی تمام شرائط پر عمل درآمد کرے گا۔ ان تمام بین الاقوامی دستاویزات نے چین کی تائیوان پر خودمختاری کو تسلیم کیا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد بین لااقوامی نظام کو تشکیل دیا۔
1949 میں، عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ریپبلک آف چائنا کی جگہ لے کر پورے چین کی واحد قانونی حکومت کے طور پر قائم ہوئی۔ قرارداد نمبر 2758 کی منظوری سے قبل بھی، اقوام متحدہ نے تائیوان کی حیثیت کا اپنے چارٹر کے تحت جائزہ لیا۔ قرارداد پر بحث کے دوران، زیادہ تر رکن ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ اب یہ مسئلہ کسی نئے ملک کو رکن بنانے کا نہیں بلکہ یہ طے کرنا ہے کہ اس ادارے میں چین کی قانونی نمائندہ حکومت کون ہے۔ اس وقت تائیوان کے نام نہاد نمائندے نے بھی مانا ہے کہ "دوسرے ممالک نے ہمیشہ تائیوان کو چین کا حصہ تسلیم کیا ہے جس پر اسے کوئی اعتراض نہیں"۔ قرارداد کا مسودہ تیار کرنے کے دوران، امریکہ نے کچھ ممالک کو ساتھ ملا کر چین کی "دوہری نمائندگی" کی تجویز پیش کی تاکہ "دو چین" یا "ایک چین، ایک تائیوان" کا تصور پیدا کیا جائے۔مگر اقوام متحدہ کے ارکان کی اکثریت نے اس سازش کو مسترد کر دیا اور قرارداد نمبر 2758بھاری اکثریت سے منظور ہوئی، جس سے دنیا نے یہ حقیقت تسلیم کی کہ دنیا میں صرف ایک چین ہے۔
1970 کی دہائی کے اوائل میں، قرارداد کی منظوری کے ساتھ ساتھ، چین کی سفارتی سطح پر قبولیت کی تیسری اور سب سے بڑی لہردیکھی گئی، جب 50 سے زائد ممالک نے چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے۔ آج تک 183 ،ممالک "ایک چین کے اصول" کی بنیاد پر چین کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے کئی دہائیوں سے تائیوان سے متعلقہ معاملات میں "ایک چین کے اصول" پر عمل پیرارہتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے قانونی امور کے دفتر نے واضح کیا ہے کہ ’’تائیوان، چین کا ایک صوبہ ہے، اس کی کوئی خودمختار حیثیت نہیں‘‘ اور’’تائیوان انتظامیہ حکومتی حیثیت کے حامل نہیں۔‘‘ اور اگر کسی دستاویز میں تائیوان کا استعمال ہو، تو اسے چین کے ایک صوبے کے طور پر استعمال ہونا چاہئے۔ یہ حقیقت ثابت کرتی ہے کہ ایک چین کا اصول عالمی معاشرت میں ایک اتفاق رائے اور بین الاقوامی تعلقات میں ایک بنیادی معمول بن چکا ہے۔
1965 سے 1971تک، پاکستان اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں لگاتار قراردادوں کے مسودے کا شریک پیش کنندہ رہا، جس نے اقوام متحدہ میں چین کے قانونی حقوق کی بحالی کی حمایت کی۔ 25اکتوبر 1971کو، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 1976ویں اجتماعی اجلاس میں ، اقوام متحدہ میں اس وقت پاکستانی نمائدہ آغا شاہی نے قرارداد کے مسودے کی بھرپور حمایت کی اور فوری ووٹنگ پر اصرار کیا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ کی "دوہری نمائندگی"کی تجویز "اقوام متحدہ کے چارٹر میں علاقائی سالمیت کے اصول کے خلاف ورزی ہے، جو مسلط کردہ علیحدگی کو قانونی علیحدگی بنانے کی کوشش ہے۔" آج، چین کے آہنی بھائی کے طور پر، پاکستان اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر 2758اور ایک چین کے اصول کو مضبوطی سے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ فروری 2025میں جاری کردہ مشترکہ بیان میں، چین اور پاکستان نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 2758کے اختیار میں کوئی سوال یا چیلنج پیدا کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان نے ایک چین کے اصول پر اپنے پختہ عزم کا اعادہ کیا۔ پاکستان کا ماننا ہے کہ تائیوان عوامی جمہوریہ چین کی سرزمین کا ایک ناقابل تقسیم حصہ ہے اور امور تائیوان چین کے بنیادی مفادات کامرکزہے۔ پاکستان قومی وحدت کے حصول کے لیے چین کی تمام کوششوں کی مضبوط حمایت کرتا ہے اور "تائیوان کی علیحدگی" کی تمام شکلوں کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔ چین امور تائیوان سے متعلق معاملات میں دیرینہ حمایت پر پاکستان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہے۔
رواں سال جاپانی جارحیت کے خلاف چینی عوامی مزاحمتی جنگ اور عالمی فاشسزم مخالف جنگ کی فتح کی اسیویں سالگرہ کے ساتھ ساتھ، جاپانی قبضے سے تائیوان کی بازیابی کی اسیویں سالگرہ بھی منائی جا رہی ہے ۔ 80سال پہلے، چین نے ظالم جاپانی حملہ آوروں کو شکست دی اور تائیوان کو دوبارہ چین کے خود مختار دائرہ اختیار میں واپس لے لیا۔ دور حاضر میں، ایک مضبوط چین کبھی بھی تائیوان کو اپنی سرزمین سے علیحدہ کرنے بالکل نہیں دےگا۔ تائیوان کوئی ملک نہ کبھی تھا،نہ ہے اور نہ ہی ہو گا ۔ چین کی مکمل وحدت چینی قوم کی مشترکہ خواہش ہے۔ یہ بھی ایک ناگزیر رجحان ہے، جو عظیم تر قومی مفادات کی عکاسی ہے۔ کوئی طاقت آبنائے تائیوان کے دونوں اطراف کی وحدت میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتی۔ چین اپنی وحدت کے عمل کو ضرور پورا کرے گا اور اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔