• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

40؍ ارب کے کوہستان اسکینڈل کا آڈٹ فروری 2025ء میں مکمل کیا، اے جی پی

انصار عباسی
اسلام آباد :…آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے میگا اسکینڈل، جسے عام طور پر 40؍ ارب روپے کے کوہستان اسکینڈل کے نام سے جانا جاتا ہے، کا آڈٹ وہ فروری 2025ء میں مکمل کیا جا چکا ہے، لیکن ساتھ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ اے جی پی افسران اس معاملے میں ملوث نہیں۔ روزنامہ دی نیوز کو دیے گئے اپنے باضابطہ جواب میں اے جی پی آفس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ 40؍ ارب روپے کے اسکینڈل کا آڈٹ فروری 2025ء میں کیا گیا، سرکاری اداروں کا آڈٹ ہمارا معمول کا کام ہے، ہم ایف آئی اے یا نیب کی طرح میڈیا کو اپنے آڈٹ نتائج ظاہر کرنے کے پابند نہیں، آئین کے آرٹیکل 171؍ کے تحت ہم آڈٹ مکمل کرکے اپنی رپورٹ صدر پاکستان یا متعلقہ گورنر کو جمع کراتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اے جی پی نے اسکینڈل میں مبینہ طور پر ملوث اہلکاروں کیخلاف کوئی کارروائی کی، تو ترجمان نے واضح کیا کہ متعلقہ افسران اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ سے تعلق رکھتے ہیں، لہٰذا انکوائری یا تادیبی کارروائی سے متعلق سوالات متعلقہ مجاز اتھارٹی سے کیے جانے چاہئیں۔ نیب اس وقت حالیہ تاریخ کا سب سے منظم انداز سے کیے گئے فراڈ سمجھے جانے والے اسکینڈل کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اس اسکینڈل میں سرکاری محکموں، ٹھیکیداروں اور بینکاری اداروں کے درمیان ملی بھگت شامل ہے۔ نیب ذرائع کے مطابق، یہ اسکینڈل کنٹریکٹرز سیکیورٹی ڈپازٹ ہیڈ جی-10113 سے غیر مجاز رقوم نکلوانے کا ہے جس میں جعلی دستاویزات کے ذریعے 2019ء سے 2024ء کے درمیان 36؍ ارب روپے سے زائد سرکاری رقم کی خرد برد کی گئی۔ یہ فراڈ 1200؍ سے زائد ٹریژری چیکس کے ذریعے کیا گیا اور اسے 13؍ مختلف بینکوں میں 100؍ سے زائد اکاؤنٹس کے نیٹ ورک کے ذریعے منی لانڈرنگ کی شکل دی گئی۔ اس اسکینڈل کے مرکزی کرداروں میں سے ایک ڈمپر ڈرائیور ہے، جس کے بینک اکاؤنٹس سے 16؍ ارب روپے سے زائد کی ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ اس کے اکاؤنٹس کو سرکاری اہلکاروں کی غیر قانونی آمدنی رکھنے کیلئے استعمال کیا گیا۔ اب تک نیب 5؍ ارب روپے سے زائد کی رقوم، پے آرڈرز اور بینکرز چیکس منجمد کر چکا ہے؛ جرم سے حاصل کردہ دولت سے خریدی گئی پرتعیش جائیدادیں ضبط کی جا چکی ہیں، جن میں سے ایک کی مالیت ساڑھے 4؍ ارب روپے بتائی جاتی ہے؛ 7؍ ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں دو سرکاری اہلکار، 2؍ بینکار اور 3؍ ٹھیکیدار شامل ہیں؛ جبکہ چوری شدہ سرکاری پیسے سے خریدی گئی قیمتی گاڑیاں بھی ضبط کی گئی ہیں۔
اہم خبریں سے مزید