پاکستان میں چینی صرف چائے یا میٹھے پکوانوں میں نہیں، بلکہ سیاست کے ایوانوں،جاگیر داروں کے کھلیانوں، افسر شاہی کی رگوں اور سرمایہ کاروں کے جسم میںخون بن کر دوڑتی ہے۔ یہ وہ’’میٹھا زہر‘‘ہے جو محض ذیابیطس جیسے خطرناک مرض کے پھیلائوکا باعث نہیں بنتا بلکہ طاقتور ترین شوگر مافیاکے مال و دولت میں غیر قانونی اضافے کا ذریعہ بھی ہے۔یہ شوگر مافیاکون ہے؟ کیسے مال بناتا ہے ؟اس کا طریقہ واردات کیا ہے؟ یہ کوئی سربستہ راز نہیں بلکہ سب جانتے ہیں مگر آج تک نہ تو کوئی اس مافیا کے خلاف کارروائی کرسکا اور نہ ہی اسکے سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکا۔آپ لیاقت علی خان کے دورِحکومت سے لیکر موجودہ وزیراعظم میاں شہبازشریف تک کے عہد تک تمام حکمرانوں کے بیانات اُٹھاکر دیکھ لیں’’چینی چوروں کو نہیں چھوڑیںگے ۔شوگرمافیا کا احتساب ہوگا‘‘۔جیسے بیانات منہ چڑاتے دکھائی دینگے ۔کئی کمیشن بنے ،تحقیقاتی کمیٹیاں قائم کی گئیں ،انکوائری کرنیوالوں نے نہایت عرق ریزی سے ذمہ داروں کا تعین کیا مگر نہ صرف یہ کہ شوگر مافیا کا احتساب نہ کیا جاسکا بلکہ مستقبل میں انکی چوربازاری کا راستہ بھی نہ روکا جاسکا۔برسہا برس سے ایک ہی طریقہ واردات ہے۔کرشنگ سیزن کے بعد یہ بیانیہ بنایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس چینی وافر مقدار میں موجود ہے تو کیوں نہ اسے برآمد کرکے زرمبادلہ کمایا جائے۔حکومت نہ صرف ایکسپورٹ کی اجازت دیتی ہے بلکہ برآمدات میں اضافے پر سہولیات و مراعات بھی ۔چند ماہ بعد ملک میں چینی کی قلت پیداہوجاتی ہے،بازار سے چینی غائب کر دی جاتی ہے۔ پھر شور مچایا جاتا ہے کہ چینی کی قلت ہو گئی ہے۔ حکومت مجبور ہوکر چینی درآمد کرتی ہے یا قیمتیں بڑھا دیتی ہے اور اسکا براہِ راست فائدہ مافیا کو ہوتا ہے، جو پرانی ذخیرہ شدہ چینی نئی قیمت پر فروخت کرتا ہے۔یوں اس بحران سے نمٹنے کیلئے حکومت کوچینی کی ڈیوٹی فری درآمد کی اجازت دینا پڑتی ہے۔یوں شوگر مافیا دونوں مواقع پر دولت سمیٹتا ہے۔ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ چینی کی قیمت بھی خود شوگر مالکان ہی طے کرتے ہیں۔ حکومت کے نرخ صرف فائلوں میں ہوتے ہیں، مارکیٹ میں وہی قیمت چلتی ہے جو مل مالکان طے کریں۔شوگر مافیا کی حرص مال و زر کا سب سے پہلا شکار کسان بنتا ہے۔ اس کا گنا وقت پر خریدا نہیں جاتا، ریٹ کم دیا جاتا ہے، اور ادائیگی کئی ماہ بعد کی جاتی ہے۔ دوسری طرف عام شہری مہنگی چینی خریدنے پر مجبور ہوتا ہے۔یوں عام آدمی کی زندگی میں زہر گھول کر یہ سرمایہ دار ’’میٹھے زہر‘‘کی فروخت سے امیر تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔وہ زرخیرزمینیں جو گندم ،کپاس اور دیگر فصلوں کی کاشت کیلئے موزوں ہیں۔جہاں شوگر ملیں لگانے پر پابندی ہے، یہ شوگر مافیا وہاں بھی چینی کے کارخانے لگانے اور توازن کو خراب کرنے کا باعث بنتا ہے۔
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائوں کے مصداق ،اس مافیا کی لوٹ مار کی روداد بہت طویل ہے۔شوگرملز گنے کی پیداوار اور چینی کی تیاری کے جعلی اعداد و شمار فراہم کرتی ہیں تاکہ ٹیکس سے بچا جا سکے، اور سبسڈی حاصل کی جا سکے۔ ایف بی آر اور متعلقہ ادارے اپنا حصہ وصول کرنے کے بعد آنکھیں بند کر کے رپورٹیں قبول کر لیتے ہیں یا پھر سیاسی دبائو کے باعث اس بدعنوانی کو نظر انداز کردیا جاتا ہے۔آپ خود بتائیے ،جس مافیا کا نمائندہ پارلیمنٹ میں بیٹھا ہو، اس کا احتساب کوئی قانون، کوئی ادارہ، کوئی نیب یا ایف آئی اے کیسے کرسکتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت میں شوگراسکینڈل کی انکوائری تو ہوتی ہے، رپورٹ بھی آتی ہے، مگر پھر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔
بہر حال جب بھی اس طرح کی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ شوگر مافیا کون ہے؟شوگر ملوں کے مالکان کون ہیں؟اشاروں ،کنایوں میں بتایا جاتا ہے کہ بیشتر شوگرملیں سیاستدانوں کی ہیں ۔ان کا تعلق مختلف سیاسی جماعتوں سے ہے ۔یہ کبھی اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو کبھی حکومت میں ،مختلف سیاسی معاملات پر ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہیں مگر شوگر مافیا کا ذکر آتے ہیں ان کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں کیونکہ یہاں یہ سب ایک پیج پر ہیں۔
ایک مرتبہ پھر یہ خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ وزیراعظم شہبازشریف نے شوگر مافیا کے خلاف بھرپور کارروائی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا اپنا خاندان بھی شوگر انڈسٹری کا حصہ ہے تو کیا اس طرح کے دعوئوں کو سنجیدگی سے لیا جاسکتا ہے؟ماضی میں سویلین بالاستی کی باتیں ہوتی رہیں ،ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ بنایا گیا ،آئین توڑنے والے ڈکٹیٹروں کو کٹہرے میں لانے اور نشان عبرت بنانے کی باتیں کی گئیں ۔یہ خواب تو تار تار ہوگئے لیکن کیا ہماری حکومتیں ان مافیاز کے سامنے بے بس ہیں ؟کیا یہ سرمایہ دار ریاست سے زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں یا پھر مصلحت پسندی کے تحت ریاست نے حکومت کا انتظام ہی اس مافیا کو سونپ دیا ہے ؟ ان تمام سوالات کے جواب کا انحصاروزیراعظم شہبازشریف کے ممکنہ اقدامات پرہے۔ شہبازشریف ایک متحرک و فعال شخصیت کے حامل ہیں ،وہ ایک اچھے منتظم ہیں ،ماضی میں انہوںنے کئی ناقابل یقین فیصلےکیے اور ان پر عملدرآمد بھی کروایا لیکن شوگر مافیا کیخلاف کارروائی کے حوالے سے میں کسی خوش گمانی میں مبتلا نہیں کیونکہ ہمارے بزرگوں کو یاد ہوگا کہ پہلے فوجی حکمران بزعم خود فیلڈ مارشل ایوب خان کو چینی کی قلت کے باعث اقتدار چھوڑنا پڑا۔نہ صرف چینی چور کے نعرے لگے بلکہ ان کے وزیر خوراک نواب عبدالغفور ہوتی سے متعلق بھی قابل اعتراض جملے زبان زدعام رہے۔اگرایوب خان اس مافیا کا کچھ نہیں بگاڑ سکا تو شہبازشریف صاحب یہ توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔