• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک امریکا ٹریڈ ایگریمنٹ، معاہدے کا متن عوام کے سامنے لانا ضروری

نیویارک (تجزیہ : عظیم ایم میاں) امریکی صدر کی تجارتی ٹیرف کی عالمی پالیسی اور بھارت کیلئے ٹرمپ کی تنقید اور 25؍ فیصد ٹیرف کے ماحول میں پاکستان اور امریکا کے درمیان 19؍ فیصد ٹیرف کے ساتھ معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اس معاہدے کی بعض خصوصیات اور اہم نکات کا ذکر تو سننے میں آرہے ہیں تاہم امریکا کے سرمایہ کاروں، پاکستان کی تاجر برادری اور پاکستانی عوام کیلئے اس پاک امریکا ٹریڈ ایگریمنٹ کا مکمل متن سامنے آنا باقی ہے تاکہ امریکی سرمایہ کار اور پاکستانی ایکسپورٹرز سمیت امریکا اور پاکستان تجارت میں دلچسپی رکھنے والے اس معاہدہ کی شرائط، تفصیلات اور باریکیوں سے آگاہی حاصل کرکے عملی فیصلے اور تجارتی حکمت عملی طے کرسکیں لہذا معاہدے کا متن عوام کے سامنے لانا ضروری ہے۔ اس معاہدہ کی جن خصوصیات کا ذکر کیا جارہا ہے اس کے مطابق امریکا اور پاکستان مل کرپاکستان میں پٹرول اور معدنیات کے ذخائر کی تلاش کریں گے۔ گو کہ ابھی یہ واضح نہیں کہ کونسی امریکی کمپنی پاکستان کے کن علاقوں میں تیل کی تلاش کا کام کرے گی؟ لیکن ایران سے ملحقہ صوبہ بلوچستان اور افغان سرحدوں سے ملحقہ صوبہ خیبرپختونخوا میں تیل اور معدنیات کے ذخائر کی موجودگی کی نشاندہی ایک عرصہ سے کی جارہی ہے۔ حالیہ پاک بھارت جنگ اور پاک چین قربتوں، گوادر سے لیکر گلگت بلتستان سے آگے خنجراب پاس تک شاہراہ قراقرم اور چین کی دفاعی ٹیکنالوجی کے تعاون تک موجود پاک چین تعلقات کے ثبوت کی موجودگی کے تناظر میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ کیا گوادر کی بندرگاہ سے لیکر خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان تک چین اور امریکی شانہ بشانہ بیک وقت پاکستان میں اپنا اپنا کام کرسکیں گے؟ کیا گوادر کی بندرگاہ پر چینی شپ اپنا سامان لاکر خنجراب پاس تک شاہراہ قراقرم کے راستے اپنا سامان لا اور لے جاسکیں گے؟ اور امریکا بھی بلوچستان کے علاقوں میں تیل اور معدنیات بھی تلاش کرلے گا۔ کیا امریکا اور چین اپنی سرد، عالمی معاشی جنگ کو فراموش کرکے پاکستان میں ایک دوسرے کی موجودگی اور پاکستان کے قدرتی وسائل، شاہراہوں اور علاقوں میں اپنے اپنے مفادات کیلئے ایک دوسرے کی موجودگی کو برداشت کریں گے؟ کیا ایران پاکستان سے ملحقہ ایرانی سرحدوں کے پاس امریکی آئل کمپنی اور دیگر امریکیوں کی موجودگی پر مطمئن رہے گا؟ اومان اور اسرائیل تعلقات، گوادر بندرگاہ سے اومان کی قربت اور سب سے بڑھ کر بلوچستان کی موجودہ صورتحال کوامن کے خطے میں تبدیل کرنے کی ضرورت کو پورا کرنے میں کتنا وقت لگے گ؟ بی ایل اے نامی بلوچ تنظیم کو امریکا 2019ء میں ہی دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے لیکن بی ایل اے کے دہشت گرد بھارتی سرپرستی میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں مصروف بلکہ یہ دہشت گرد متعدد دیگر تنظیموں کے نام اختیار کرکے بھی دہشت گردی کررہے ہیں۔ اسی طرح صوبہ خیبرپپختونخوا کے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میںبھی دہشت گردی کا زور ہے۔ خنجراب کے آس پاس گلگت بلتستان کی شاہراہوں اور موسمی تباہیوں کی بحالی اور چینی دوستی کے اثرات اور حساسیت کے زمینی حقائق کی موجودگی میں امریکی کمپنیوں کی موجودگی اور پاک چین موجودہ دفاعی اور معاشی تعاون اور گوادر کی بندرگاہ، شاہراہ قراقرم، ٹیکسلا کمپلیکس اور دیگر حقائق کا اشتراک کیسے کام کرے گا؟ کیا پاکستان بیک وقت اپنی سرزمین پر امریکا اور چین کی عالمی طاقتوں اور معاشی قوت کے درمیان پرامن ور خوشگوار توازن قائم کرسکے گا۔ پاک امریکا ٹریڈ ایگریمنٹ کا خیرمقدم لیکن مذکورہ سوالات جواب طلب اور معاہدے کے متن کو عوام کے سامنے لانا ضروری ہے۔
اہم خبریں سے مزید