45سال پہلے جب اندراگاندھی بھارت کی وزیراعظم اور ڈاکٹر جگن ناتھ مشراریاست بہار کے وزیراعلیٰ تھے تو ایک انگریزی اخبار میں شائع ہونے والی خبر سے بھونچال آگیا۔22نومبر1980ء کو ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ضلع بھاگلپور کی پولیس نے جرائم کا قلع قمع کرنے کا ایک انوکھا انداز متعارف کروایا ہے جس میں سنگین نوعیت کی وارداتوں میں ملوث ملزموں کو گرفتار کرکے انکے خلاف قانونی کارروائی کرنے کے بجائے موقع پر ہی فیصلہ سنادیا جاتا اور ان جرائم پیشہ افراد کی آنکھوں میں سلائی پھیر کر تیزاب ڈال دیا جاتا تھا تاکہ بصارت سے محروم ہونے کے بعد وہ کسی جرم کا ارتکاب نہ کرسکیں۔ معلوم ہوا کہ بھاگلپور جیل میں ایسے 33 قیدی موجود ہیں جنہیں اندھا کردیا گیا۔اس وقت کے وفاقی وزیر ارون شوری نے بعد ازاں اپنی سوانح حیات ’’The Commissioner For Lost Causes‘‘میں یہ واقعہ بیان کیا مگر یہ تہلکہ خیز خبر سامنے لانے کاکریڈٹ انگریزی اخبار کے پٹنہ میں نامہ نگار ارون سنہا ہو جاتا ہے جو بعد ازاں ایک بھارتی اخبار کے مدیر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ۔یہ پالیسی اس سوچ کے تحت اپنائی گئی کہ خواتین کے ساتھ جبری جنسی زیادتی اور دیگر سنگین وارداتوں میں ملوث ملزم ثبوت اور گواہ دستیاب نہ ہونے کے باعث عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں لہٰذا فوری انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں موقع پر ہی سزا دیدی جائے۔پولیس اہلکار انہیں پکڑ کر تھانے لے جاتے ،زمین پر لٹا کر بوری سلائی کرنے والے سوئے سے آنکھیں پھوڑ دی جاتیں اور پھر تیزاب انڈیل دیا جاتا ۔وزیراعلیٰ جگن ناتھ مشرا کی کابینہ کے کئی ارکان اور انتظامی عہدیداروں نے اس حوالے سے چشم پوشی اختیار کی کیونکہ ایسے واقعات کو عوامی پذیرائی حاصل تھی۔لہٰذا جب یہ تحقیقاتی رپورٹ منظر عام پر آئی تو خبر لیک کرنے والے سپرنٹنڈٹ جیل کو ہی معطل کردیا گیا۔لوگ محکمہ پولیس کے حق میں سڑکوں پر نکل آئے ۔بعد ازاں حقیقت پر مبنی اس کہانی پر ’’گنگا جل‘‘ نامی ایک فلم بھی بنائی گئی جس میں اجے دیوگن نے پولیس افسر کا کردار ادا کیا۔برسوں پرانی یہ کہانی اور بالی وڈ فلم یوں یاد آئی کہ آج کل پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی اسی قسم کی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔قیام پاکستان کے بعد کئی برس تک کریمنل انویسٹی گیشن ڈیپارٹمنٹ (CID)نہایت موثر انداز میں کام کرتا رہا ۔بعد ازاں اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ،کرائم برانچ اور اسپیشل برانچ۔پولیس آرڈر 2002ء کے تحت کرائم برانچ کو مزید دو حصوں میں بانٹ دیا گیاکرائم اور انویسٹی گیشن ونگ ۔اس دوران کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (CIA)بھی کام کرتی رہی جسے بعد ازاں آرگنائزڈ کرائم یونٹ یعنی OCUمیں تبدیل کردیا گیا۔مگر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے اس کا دائرہ کار پورے صوبے میں پھیلانے کیلئے رواں سال کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ (CID)قائم کردیا۔جب سے پولیس کے اس ذیلی محکمے نے کام شروع کیا ہے پولیس مقابلوں میں شدت آگئی ہے ۔خواتین کی عصمت دری جیسے واقعات میں ملوث افراد اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارے جاتے ہیں اوربچوں سے درازدستی کرنیوالے جنسی درندے اپنے نیفے میں اُڑسے پستول کے چل جانے سے ناکارہ ہوجاتے ہیں ۔سی سی ڈی کی دہشت کا یہ عالم ہے کہ بدمعاشوں کی پسندیدہ سواری ڈبل کیبن ڈالے کی مارکیٹ کریش کرگئی ہے ۔’’بھائی لوگ‘‘شرافت کی زندگی گزارنے کا اعلان کررہے ہیں یاپھرسیاسی جماعتوں میں شامل ہورہے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ بھارتی ریاست بہار کے ضلع بھاگلپور کی طرح پاکستان کے صوبہ پنجاب میں بھی عوام کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے گن گارہے ہیںبظاہر یہ سب بہت اچھا لگتا ہے کہ پہلی بار مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنایا جارہا ہے ۔عام افراد ہی نہیں اشرافیہ کے بیشتر لوگ بھی ’’صفائی‘‘ کی اس مہم میں آن بورڈ ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ سی سی ڈی ٹھیک کام کررہی ہے ۔اگر معاشرے کو اس ناسور سے پاک کرنا ہے ،بڑھتی ہوئی لاقانونیت کو ختم کرنا ہے تو یہی حل ہےلیکن یہ ایک سراب،مغالطہ اور غلط فہمی ہے ۔آپ غنڈہ گردی کو ختم کرنے کیلئے باوردی غنڈوں کا گینگ تیار کررہے ہیں جس سے یہ ناسور ختم ہونے کے بجائے مزید پھیل جائے گا۔شہبازشریف کا بطور وزیراعلیٰ پنجاب پہلا دورِحکومت ہو یا پھر کراچی آپریشن ،وہاںپالے گئے انکائونٹرز اسپیشلسٹ کس کو یاد نہیں ؟انعام کی لالچ میں ایک بے گناہ مزدور غلام رسول بروہی کو ڈاکو معشوق بروہی قرار دے کر جعلی پولیس مقابلے میں ماردیا گیا۔جب انکے منہ کو خون لگ جاتا ہے تو دیکھتے ہی دیکھتے پولیس بھی مافیا کا حصہ بن جاتی ہے اور غنڈوں کی نئی کھیپ سامنے آجاتی ہے ۔انسانی تاریخ میں کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ بدمعاشی اور غنڈہ گردی کو ’’قانونی لاقانونیت ‘‘سے ختم کیا گیا ہو۔انارکی ،تشدداورانتشار کو ہمیشہ قانون کی عملداری سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے ۔اگر دیرپا امن قائم کرنا ہے تو پولیس مقابلوں کا کلچر متعارف کروانے کے بجائے سی سی ڈی کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ملزموں کے خلاف شواہد جمع کرکے مضبوط مقدمہ بنانے کی ترغیب دیں تاکہ استغاثہ کی کمزوری سے ملزم عدالتوں سے رہانہ ہوسکیں۔سی سی ڈی کی پہچان اور تعارف یہ ہونا چاہئے کہ جس مقدمہ کی تفتیش اسے دیدی جائے ،اس میں سزایابی کا امکان 99فیصد ہو۔ورنہ اس ’’قانونی لاقانونیت‘‘سے تو مرض ختم ہونے کے بجائے لاعلاج ہو جائے گا۔