• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نودولتیوں کو فون کریں تو اکثرآگے سے کالر ٹون سنائی دے گی '’’اساں ڈھول مناوناں اے‘ بھانویں جان دی بازی لگ جاوے‘‘۔ اِنکو ہمیشہ کوٹ پینٹ کے ساتھ سرخ یا تیز گلابی رنگ کی شرٹ پہننے کا شوق ہوتا ہے۔ ٹائی بھی لگانا شروع کر دیتے ہیں لیکن نیچے ایرانی سویٹر پہننا نہیں بھولتے۔ اِن کی جرابوں سے ہر وقت بھینی بھینی بدبو آتی رہتی ہے۔ یہ بنیان پرانی اور جوتے نئے پہنتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ایسا پرفیوم پسند کرتے ہیں جسکی خوشبو پورے ضلع میں پھیل جائے۔

یہ گھر میں خرچے کیلئے بے شک بیوی کو تین سو روپے بھی نہ دیں لیکن بیگانی شادیوں میں خواجہ سراؤں کے رقص پر ہزار ہزار کے نوٹ نچھاور کرتے ہیں۔یہ جونہی امیر ہوتے ہیں پہلی فرصت میں گاڑی کی بیک اسکرین پر بچوں کے نام لکھواتے ہیں 'ٹونی‘ شکیل‘ انجم‘۔ چونکہ ان کی جیبیں بھری ہوتی ہیں اس لئے یہ نارا ض رشتے داروں سے بھی یکدم صلح کر لیتے ہیں اورگولڈن گھڑی پہن کر اُن سے ملنے جاتے ہیں۔ پیسہ ہاتھ میں آتے ہی اِنہیں صابن سے نفرت اور ہینڈ واش سے عشق ہو جاتا ہے،اچھی چیز کو دیکھ کر 'واہ کی بجائے 'واؤ کہنا شروع ہو جاتے ہیں تاہم بوتل کے اسٹرا کو 'پائپ‘ اور ٹوتھ پکس کو 'تیلی ہی کہتے ہیں۔ کولڈ ڈرنک پی رہے ہوں تو تب تک بوتل کا پیچھا نہیں چھوڑتے جب تک بوتل خود نہ بول پڑے '’’وے ہُن تے مینوں چھڈ دے‘‘...یہ یکدم بچوں کی سالگرہ ہوٹل میں منانا شروع ہو جاتے ہیں اور سالگرہ نہ ہو تو گھر میں اُس دادا کی روح کے ایصال ثواب کیلئے ختم رکھ لیتے ہیں جس کی قبر پر کبھی فاتحہ پڑھنے تک نہیں گئے ہوتے۔اِنہیں یکدم امیرانہ طور اطوار اچھے لگنے لگتے ہیں۔ چینی کی جگہ Sweetner استعمال کرنے لگتے ہیں‘ یہ الگ بات ہے کہ ایک کپ میں 50 گولیاں ڈالے بغیر چین نہیں ملتا۔ تازہ تازہ دولت مند ہونے کی وجہ سے اِن کے پاؤں میں موچ بھی آ جائے تو پہلا خیال یہی آتا ہے کہ یقیناً بلڈ پریشر ہائی ہو گیا ہے۔

یہ موبائل میں ایسی ایپلی کیشن انسٹال کرتے ہیں کہ جب کسی کی کال آئے تو پورا موبائل نیلی پیلی بتیوں سے جلنے بجھنے لگے۔ ان کی رِنگ ٹون بھی سب سے نرالی ہوتی ہے‘ کال آئے تو '’’چٹیاں کلائیاں‘‘چل پڑتا ہے۔انکے پاس بے شک نئے ماڈل کی گاڑی آ جائے‘ یہ نیا ون ٹو فائیو ضرور خریدتے ہیں۔ امیر ہوتے ہی اِنہیں فیشن کا بھی شوق پیدا ہو جاتا ہے لہٰذا بڑے دھڑلے سے جم جوائن کرتے ہیں اور اگلے ہی دن کراہتے ہوئے بتا رہے ہوتے ہیں کہ 'کھلیاںپڑ گئی ہیں۔ ان کی زندگی کاا سٹائل یکدم بدل جاتا ہے‘ ناشتے میں سلائس اور جیم کھاتے ہیں اور پندرہ منٹ بعد دو پراٹھے 'ڈاپھ جاتے ہیں۔ یہ گاڑی چلا رہے ہوں تو پوری سڑک اِن کی گاڑی میں لگے اسپیکروں کی آواز سے دھم دھم کر رہی ہوتی ہے۔ یہ ڈٹ کے کھانا کھا لیں تو ہزار کوشش کے باوجود محفل میں اپنے ڈکار پر قابو نہیں پا سکتے۔یہ کسی کی شادی میں سلامی دیں تو ہزار کا پورا نوٹ دینے کی بجائے لفافے میں پانچ پانچ سو کے دو نوٹ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی کسی چیز کی قیمت پچاس ہزار ہو تو ہمیشہ آدھا لاکھ بتاتے ہیں۔ یہ سگریٹ پئیں نہ پئیں اپنے پاس مہنگی ڈبی اور لائٹر ضرور رکھتے ہیں۔پیسے کی فراوانی ہوتے ہی یہ محلے کی مختلف انجمنوں کے سرپرست اعلیٰ بھی بن جاتے ہیں۔ یہ چائنیز ریسٹورنٹ بھی جانا شروع کر دیتے ہیں تاہم گھر واپس آ کر اطمینان سے کھانا کھاتے ہیں۔ یہ اچانک سے ادب پرست بھی بن جاتے ہیں‘ شاعری کی کتابیں بھی خریدنے لگ جاتے ہیں اور دیکھا دیکھی چند بڑے شاعروں کے نام بھی یاد کر لیتے ہیں‘ مزا تب آتا ہے جب کوئی ان سے پوچھتا ہے کہ آپ کا پسندیدہ شاعر کون سا ہے؟ اور یہ کچھ سوچ کر فخریہ انداز میں کہتے ہیں 'فیض علی فیض۔

جونہی اِن کے پاس چار پیسے آتے ہیں یہ 10X10 کے بیڈ روم میں دو سپلٹ اے سی لگواتے ہیں اور جگہ جگہ آہیں بھرتے ہیں کہ جو مزا‘ ونڈو اے سی کا تھا وہ دو ٹن کے سپلٹ کا بھی نہیں۔ ہزار کوشش کے باوجود یہ لفافے کو فلافا، ساشے کو 'شاشےاور تھیٹر کو 'ٹھیٹھر ہی بولتے ہیں۔ یہ امیر ہوتے ہی عمرے پر جانے کا پروگرام بناتے ہیں‘ گھر میں سولہ دیگیں پکواتے ہیں اور رشتے داروں کو عمرے کے ایک ایک منظر کی سیلفیاں وٹس ایپ کرتے ہیں۔ اِنہیں پیسہ خرچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ نہ آئے تو بیٹھے بٹھائے گاڑی کے ٹائر تبدیل کروا لیتے ہیں ‘ا سٹیرنگ کا نیا کور چڑھا لیتے ہیں‘ بمپر پر شوخ لائٹیں لگوا لیتے ہیں‘ لڑکی کے نقاب والا سن شیڈ لگوا لیتے ہیں اور پھر بھی دل نہ بھرے توگاڑی کے اندر ایسا سسٹم لگوا لیتے ہیں کہ انڈیکیٹر کا بٹن دبایا جائے تو جب تک گاڑی مڑ نہ جائے مسلسل’ 'دل بد تمیز ‘چلتا رہے۔ تازہ تازہ امیر ہونے کی وجہ سے یہ کئی جگہ منچورین کے ساتھ پراٹھا بھی کھاتے پکڑے جاتے ہیں‘ یا پھر زیادہ ماڈرن ہونے کے چکر میں ہاف فرائی انڈا‘ سلائس میں رکھ کر زور سے 'چک‘ مار لیتے ہیں۔ پیسے آنے کے بعد اِنہیں چائے بھی کانٹے سے پینے کا شوق پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ رضائی کی بجائے کمبل پسند کرنے لگتے ہیں اور ٹوتھ پیسٹ کے ساتھ ماؤتھ واش بھی استعمال کرنے لگتے ہیں تاہم کافی دنوں کے بعد اِنہیں بریکنگ نیوز ملتی ہے کہ ماؤتھ واش پینے والی چیز نہیں ہوتی۔ مالی آسودگی کس کو اچھی نہیں لگتی لیکن خدا کسی کو ایسا نودولتیا نہ بنائے کہ بیس ہزار کے سوٹ میں سوا تین روپے کا بندہ نظر آئے۔

تازہ ترین