کراچی (رفیق مانگٹ) برطانوی اور امریکا میڈیا فنانشل ٹائمز ، بلومبرگ اور فارچیون نے کہا ہے کہ فیلڈ مارشل عاصم منیر کی زیرک حکمت عملی، کرپٹو کرنسی، معدنی وسائل اور اسٹرٹیجک تعاون کے وعدوں نے پاک امریکا تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچایا، پاکستان نے ٹرمپ کا دل کیسے جیتا ؟ جنوبی ایشیا کی سفارتی بساط کیسےالٹ گئی؟
امریکا سے حتمی تجارتی معاہدہ قریب ہے، امریکی منڈی تک بہتر رسائی، معاہدہ ٹیکسٹائل شعبے کو تقویت دے گا، فیلڈ مارشل عاصم منیر نے ٹرمپ کیساتھ قربت بڑھائی، پاکستانی اقتصادی بحران میں کرنسی بورڈ مستحکم معیشت کی کلید ہے۔مائیکل کلگمین نے کہا ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک حیرت ہے۔
تفصیلات کے مطابق پاکستان نے غیر معمولی سفارتی حکمت سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اعتماد جیت کر جنوبی ایشیا کے سیاسی منظر نامے کو ہلا دیا۔ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی زیرک حکمت عملی، کرپٹو کرنسی، معدنی وسائل، اور اسٹرٹیجک تعاون کے وعدوں نے پاک امریکا تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچایا، جبکہ بھارت کو سفارتی و معاشی دباؤ کا سامنا ہے۔
پاکستان نے ایک شاندار سفارتی کامیابی کے ذریعے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت حاصل کرلی، جس نے جنوبی ایشیا کی جغرافیائی سیاسی بساط کو پلٹ دیا۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق، پاکستان کی سینئر فوجی قیادت نے دہشت گردی کے خلاف تعاون، کریپٹو کرنسی، اور معدنی وسائل کے شعبوں میں امریکی مفادات کو راغب کرنے کی منظم حکمت عملی اپنائی۔
وائٹ ہاؤس سے براہ راست رابطوں اور ٹرمپ کے قریبی کاروباری حلقوں سے تعلقات نے پاکستان کو واشنگٹن کی ترجیحات میں سرفہرست لا کھڑا کیا۔ جنرل عاصم منیر کی حالیہ امریکی سرگرمیوں نے پاک-امریکہ تعلقات کو غیر متوقع گرمجوشی بخشی۔
جون 2025 میں عاصم منیر کی ٹرمپ کے ساتھ دو گھنٹے کی نجی ملاقات، جو مئی میں پاک-بھارت فوجی تصادم کے فوراً بعد ہوئی، اس کی اہم مثال ہے۔ پاکستان کی کامیابی کا ایک اہم ستون اس کی کرپٹو ڈپلومیسی رہی۔ اپریل 2025 میں ٹرمپ کی حمایت یافتہ ورلڈ لبرٹی فنانشل نے پاکستان کے کرپٹو کونسل کے ساتھ معاہدہ کیا۔
امریکی ایلچی کے بیٹے زچ وٹکاف نے پاکستان کی کھربوں ڈالر کی معدنی دولت کو ٹوکنائزیشن کے لیے پرکشش قرار دیا۔ پاکستانی وزیر بلال بن ثاقب نے واشنگٹن میں ٹرمپ کے حلقوں کو متاثر کیا۔ ٹرمپ نے پاکستان کے تیل کے ذخائر کی ترقی کا وعدہ کیا، جبکہ پاکستان نے توانائی اور معدنیات میں امریکی سرمایہ کاری کے مواقع پیش کیے۔
مئی 2025 کے پاک-بھارت تنازع میں پاکستان نے تحمل اور طاقت کا امتزاج دکھایا، چند بھارتی جیٹ گرائے لیکن بڑے تصادم سے گریز کیا۔ امریکہ اور خلیجی ممالک کی ثالثی سے جنگ بندی ہوئی، جس کا کریڈٹ پاکستان نے ٹرمپ کو دیا اور انہیں نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا۔ تاہم، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ٹرمپ کی ثالثی کی تردید کی اور کہا کہ جنگ بندی فوجوں کے براہ راست رابطوں سے ہوئی۔
بھارت نے روس سے تیل کی خریداری کی وجہ سے 50 فیصد ٹیرف کا سامنا کیا، جس سے اس کی سفارتی اور معاشی مشکلات بڑھیں۔ پاکستان نے خود کو امریکہ، چین اور ایران کے درمیان ثالث کے طور پر پیش کیا، جیسا کہ 1970 کی دہائی میں اس نے نکسن کے چین سے تعلقات استوار کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔
جنرل منیر نے بیجنگ اور ایران کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے، جبکہ ٹرمپ کے ساتھ قربت بڑھائی۔ مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر مارون وین بام کہتے ہیں کہ پاکستان ایک نایاب ملک ہے جو متعدد عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات رکھتا ہے۔ لیکن ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ کامیابی عارضی ہو سکتی ہے۔
سابق سفیر حسین حقانی کے مطابق، ٹرمپ پاکستان کو بھارت کے خلاف ایک کارڈ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ایشیا پیسیفک فاونڈیشن کے مائیکل کگلمین اسے تعلقات کی نشاۃ ثانیہ قرار دیتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ پاک امریکہ تعلقات میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ایک حیرت ہے۔ پاکستان نے ٹرمپ کے غیر روایتی انداز کو اپنے حق میں موڑنے کا فن سیکھ لیا۔
سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے خبردار کیا کہ ٹرمپ کی غیر یقینی پالیسیوں سے ہوشیار رہنا ہوگا۔ پاکستان اور امریکہ ایک اہم تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے قریب ہیں، جو پاکستانی برآمدات خصوصاً ٹیکسٹائل کے لیے بہتر ٹیرف اور توانائی، کان کنی اور معدنیات میں امریکی سرمایہ کاری کے مواقع لائے گا۔
بلومبرگ ٹی وی کے مطابق، وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے کہا کہ دونوں ممالک جلد معاہدے کی تفصیلات طے کریں گے، جس سے دوطرفہ تجارت کو فروغ ملے گا۔ دونوں ممالک اہم تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے سرگرم ہیں، جس میں واشنگٹن کی جانب سے سرمایہ کاری کے وعدے بھی شامل ہیں۔
وزیر مملکت برائے خزانہ بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ دونوں ممالک آنے والے مہینوں میں معاہدے کی تفصیلات طے کریں گے۔ پاکستان اپنی اہم برآمدات، خصوصاً ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات، پر بہتر ٹیرف حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ توانائی، کان کنی اور معدنیات جیسے شعبوں میں امریکی سرمایہ کاری کو یقینی بنانے پر بھی زور ہے۔ ہم ان مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔
رپورٹ کے مطابق امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا برآمدی منڈی ہے، جہاں 2024 تک سالانہ 14 کھرب 20 ارب روپے( 5 ارب ڈالر) سے زائد کی برآمدات ہوئیں، جبکہ پاکستان کی امریکہ سے درآمدات 5 کھرب 96 ارب روپے( 2.1 ارب ڈالر) رہیں۔
دونوں ممالک امریکی مصنوعات کے لیے مارکیٹ تک رسائی بڑھانے، غیر ٹیرف رکاوٹوں کو کم کرنے اور رولز آف اوریجن جیسے امور پر بات چیت کر رہے ہیں۔ اسلام آباد نے 19 فیصد کی لیوی بھی حاصل کی ہے، جو ٹرمپ کی طرف سے ابتدائی طور پر عائد کردہ 29 فیصد سے نمایاں طور پر کم ہے اور دیگر جنوبی ایشیائی ممالک جیسے کہ بھارت اور بنگلہ دیش کے مقابلے میں بھی کافی کم ہے۔
ادھر امریکی جریدے فار چیون کے مطابق پاکستان کی معیشت اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے، جہاں روپیہ تیزی سے گراوٹ کا شکار ہے، سرمایہ ملک سے باہر منتقل ہو رہا ہے، اور قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوتا جا رہا ہے۔
اس معاشی دلدل سے نکلنے کے لیے عالمی معاشی ماہر اسٹیو ہینکی نے ایک منفرد حل تجویز کیا ہے: کرنسی بورڈ۔ ہینکی، جو ہائپر انفلیشن کے عالمی ماہر ہیں، نے سابق وزیراعظم کے ساتھ گفتگو میں اس نظام کو پاکستان کی معاشی بحالی کا فوری اور مؤثر راستہ قرار دیا۔ یہ نظام نہ صرف روپے کی قدر کو مستحکم کرسکتا ہے بلکہ مہنگائی کو روک کر سرمائے کے فرار پر بھی قابو پا سکتا ہے۔
بلغاریہ جیسے ممالک میں اس کی کامیابی پاکستان کے لیے ایک امید کی کرن ہے اسٹیو ہینکی، جو جونز ہاپکنز یونیورسٹی میں اپلائیڈ اکنامکس کے پروفیسر اور ہائپر انفلیشن کے عالمی ماہر ہیں، نے لکھا پاکستان کی معیشت گہرے بحران سے گزر رہی ہے۔ جون 2021 سے پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 48 فیصد قدر کھو چکا ہے، جس سے مہنگائی بے قابو ہوئی اور غریب عوام پر معاشی بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔
سرمایہ تیزی سے ملک سے باہر، خاص طور پر دبئی کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق، 2000 سے اب تک پاکستان میں آنے والے فنڈز کا 37 فیصد غیر قانونی طور پر باہر جا چکا ہے۔ اس صورتحال نے پاکستان کو بار بار عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض لینے پر مجبور کیا، جو اب تک 24 بار ہو چکا ہے۔اس معاشی تباہی سے نکلنے کے لیے ہینکی نے سابق وزیراعظم کو کرنسی بورڈ کا نظام اپنانے کی تجویز دی۔