• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

14 اگست کا دن وطنِ عزیز پاکستان کیلئے صرف ایک تاریخی دن نہیں بلکہ ایک نظریے، ایک قربانی، اور ایک جدوجہد کی علامت ہے۔ ہر سال جب یہ دن آتا ہے تو پوری قوم اپنے اندر ایک نئی روح، ایک تازہ ولولہ، اور ایک امید کیساتھ اسے مناتی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں آزادی کی تقریبات کا رنگ، ذوق، اور وہ جوش جو کبھی اس دن کا خاصہ ہوا کرتا تھا، مدھم ہوتا جا رہا تھا۔ حب الوطنی کے جذبات کمرشلائزیشن کی نذر ہو چکے تھے، اور جشنِ آزادی صرف جھنڈیوں، پٹاخوں اور موٹر سائیکلوں کے شور و غل تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔تاہم 2025 کے جشنِ آزادی نے ایک بار پھر ہمیں ماضی کی ان سنہری یادوں کی طرف لوٹا دیا، جب پاکستان کا بچہ بچہ 14 اگست کے لیے کئی دن پہلے تیاری کرتا تھا، گلیاں سجائی جاتی تھیں، ملی نغمے فضا میں گونجتے تھے، اور تقریری مقابلے، مشاعرے، ثقافتی میلوں کا انعقاد سرکاری سطح پر بھی بھرپور انداز میں ہوتا تھا۔ اس بار جس طرح سندھ حکومت نے “معرکۂ حق” کے عنوان سے آزادی کی تقریبات کو منظم کیا، وہ اس بات کی گواہی ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے اگر چاہیں تو عوامی جذبات سے جڑ کر حب الوطنی کے جذبے کو ایک بار پھر زندہ کر سکتے ہیں۔سندھ حکومت نے نہ صرف روایتی تقریبات کو بحال کیا بلکہ ان میں نئے رنگ بھی بھرے۔ معرکۂ حق کے عنوان کے تحت جو تقریبات منعقد کی گئیں، ان کا مقصد صرف جشن منانا نہیں تھا بلکہ قوم کو یاد دلانا تھا کہ یہ ملک کیسے حاصل کیا گیا، کس قیمت پر حاصل کیا گیا، اور اب اس کے دفاع اور بقا کے لیے کیا ذمہ داریاں ہم پر عائد ہوتی ہیں۔ کراچی، حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص، نوابشاہ اور دیگر شہروں میں جو تقریبات دیکھنے کو مل رہی ہیں، انہوں نے 60 ءاور 70 ءکی دہائیوں کی وہ فضا لوٹا دی جب ریاست اور عوام ایک صفحے پر نظر آتے تھے۔کراچی میں ’’معرکۂ حق‘‘ کے تحت جو تقریبات منعقد ہورہی ہیں، وہ نہ صرف اپنی شان و شوکت میں منفرد ہیں بلکہ اس کا پیغام بھی واضح اور دو ٹوک ہے۔ یہ محض ایک رنگا رنگ تقریب نہیں ہے بلکہ ایک نظریاتی پیغام ہے، ایک عہد کی تجدید ہے۔ بچوں نے جب تحریکِ پاکستان پر مبنی خاکے پیش کیے، جب خواتین نے ’’خواتین کا کردار تحریکِ پاکستان میں‘‘ کے موضوع پر مدلل تقریریں کیں، جب نوجوانوں نے وطن کی محبت میں ملی نغمے گائے، تو وہ سب کچھ دل میں اترتا چلا گیا۔اس سال کئی سالوں بعد سندھ کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں میں بھی معرکۂ حق کے تحت باقاعدہ سرگرمیوں کا انعقاد کیا گیا، جو ایک غیرمعمولی اقدام تھا۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ آج کا نوجوان ماضی سے ناآشنا ہے، یا اسے دلچسپی نہیں، مگر ان تقریبات میں طلباء و طالبات کی دلچسپی نے ثابت کر دیا کہ اگر ریاست ان کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کرے، تو وہ تاریخ کو نہ صرف جاننے کے لیے تیار ہیں بلکہ اسے اپنے کردار کا حصہ بنانے کے لیے بھی آمادہ ہیں۔ یہ سندھ حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے ایک ایسا ماحول مہیا کیا جس میں نوجوان نسل نے پاکستان کے حقیقی مقصد کو سمجھنے کی کوشش کی۔یہ سب کچھ دیکھ کر ذہن خود بخود 60ءاور 70ءکی دہائیوں میں لوٹ جاتا ہے، جب پی ٹی وی پر خصوصی پروگرامز، ریڈیو پاکستان کی لائیو کوریج، اور اخبارات میں شائع ہونے والے خصوصی شمارے ہر فرد کو یہ احساس دلاتے تھے کہ وہ ایک عظیم مقصد کا حصہ ہے۔ اس وقت کے اسکولز میں بچوں کو آزادی کی قدر سکھائی جاتی تھی، بزرگ تحریکِ پاکستان کے واقعات سناتے تھے، اور معاشرہ ایک نظریے کے گرد مجتمع نظر آتا تھا۔ ان تمام روایات کو اس سال سندھ حکومت نے ایک نئے جذبے کے ساتھ زندہ کر دیا۔خاص طور پر یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ معرکۂ حق کے تحت صرف شہری علاقوں تک محدود تقریبات نہیں ہوئیں بلکہ دیہی سندھ میں بھی اس جذبے کو بھرپور انداز میں محسوس کیا گیا۔ سانگھڑ، مٹیاری، دادو، ٹنڈو آدم، ٹھٹہ اور بدین جیسے علاقوں میں بھی مقامی انتظامیہ نے بھرپور سرگرمیوں کا اہتمام کیا۔ یہ وہی مقامات ہیں جہاں ماضی میں بھی تحریکِ پاکستان کے لیے آوازیں اٹھی تھیں۔ اس سال ان علاقوں میں بچوں کے جلوس، ملی نغموں کے مقابلے، اور حب الوطنی پر مبنی تصویری نمائشیں دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔سندھ حکومت کے اس اقدام کو صرف ایک تقریباتی پروجیکٹ کہنا زیادتی ہو گی۔ یہ دراصل ایک نظریاتی اصلاح تھی، ایک تربیتی عمل تھا، اور ایک سماجی مہم تھی۔ ایسے اقدامات ہی عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد کا رشتہ بحال کرتے ہیں۔ جب عوام کو محسوس ہوتا ہے کہ ریاست ان کے جذبات کو سمجھ رہی ہے، ان کی تہذیبی شناخت، ان کی تاریخ، اور ان کے نظریے کو زندہ رکھنا چاہتی ہے، تو وہ ریاست کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، چاہے حالات کتنے بھی مشکل ہوں۔یقیناً، آج جب ملک کو اندرونی و بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے، دہشت گردی، مہنگائی، سیاسی عدم استحکام، اور معاشرتی تناؤ جیسے مسائل سر اٹھا رہے ہیں، ایسے میں حب الوطنی کا جذبہ جگانا اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔معرکۂ حق کے تحت منعقد ہونے والی تقریبات نے یہ واضح پیغام دیا کہ پاکستان محض ایک ریاست نہیں، یہ ایک نظریہ ہے، ایک عقیدہ ہے، اور ایک اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس کو محفوظ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ہمیں امید ہے کہ سندھ حکومت کا یہ عمل محض ایک سال تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ہر سال 14 اگست اسی شان و شوکت، اسی نظریاتی وابستگی، اور اسی جذبے سے منایا جائے گا۔ اگر دیگر صوبے بھی اس روایت کو اپنائیں، تو پورے پاکستان میں حب الوطنی کی وہ فضا پیدا ہو سکتی ہے جو ہمیں درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے درکار ہے۔

تازہ ترین