• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی اور عسکری قیادت کے باہمی تعاون پر مبنی موجودہ نظام مملکت کے بارے میں کئی ماہ سے مسلسل یہ افواہیں گردش میں تھیں کہ اس میں بڑی تبدیلیاں واقع ہونے والی ہیں۔ سیاسی اور عسکری حلقوں کے درمیان پہلے جیسی باہمی اعتماد کی فضا برقرار نہیں رہی ہے۔ سیاسی قیادت کی کارکردگی سے عسکری قیادت مطمئن نہیں ہے۔ اس کی فیصلہ سازی کی صلاحیت کے حوالے سے عسکری حلقے مایوسی کا شکار ہورہے ہیں اورحالات مارشل لا کی طرف جارہے ہیں۔ صدر مملکت کو ان کے منصب سے سبکدوش کیا جانے والا ہے۔ آرمی چیف خود یہ منصب سنبھالنے کی تیاری کررہے ہیں۔ان افواہوں کے باعث ملک کے سیاسی ماحول پر بے یقینی کی کیفیت طاری تھی ۔ قومی معیشت بھی بہتری کے جانب گامزن ہونے کے باوجود سیاسی تبدیلی کی افواہوں سے متاثر تھی ۔ جولائی کے دوسرے ہفتے میں وزیر اعظم نے صدر زرداری کے ہٹائے جانے کی افواہوں کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے صراحت کی تھی کہ آرمی چیف صدر مملکت بننے کے ہرگز خواہشمند نہیں ہیں اور سیاسی وعسکری قیادت کے درمیان مکمل باہمی اعتماد اور ہم آہنگی کی فضا برقرار ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بھی سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں ان افواہوں کو منظم سازش قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ ان افواہوں کے پیچھے کون سی طاقتیںہیں اور ان کے مقاصد کیا ہیں۔ اس کے بعد اگست کے پہلے ہفتے میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے برطانوی جریدے ’دی اکانومسٹ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں واضح کیاکہ فیلڈمارشل کے صدر بننے کی باتیں مکمل طور پر بے بنیاد ہیں، لیکن ان وضاحتوں کے باوجود افواہوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا تھا اور روایتی اور سماجی دونوں قسم کے ذرائع ابلاغ پر یہ افواہیں گرم تھیں۔ان حالات میں ضرورت محسوس ہورہی تھی کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر بذات خود اپنے اہل وطن اور پوری دنیا پر واضح کردیں کہ وہ کس طرح سوچ رہے ہیں ۔ یہ ضرورت روزنامہ جنگ کے سینئر صحافی سہیل وڑائچ کو برسلز میں دیے گئے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے انٹرویو اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے اجتماع سے ان کے خطاب کے ذریعے بتمام و کمال پوری ہوگئی ہے۔ آرمی چیف نے دوٹوک الفاظ میں وضاحت کردی ہے کہ تبدیلی کی تمام افواہیں سراسر جھوٹ ہیں، افواہیں پھیلانے والے حکومت اور مقتدرہ دونوں کے مخالف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ خدا نے مجھے اس ملک کا محافظ بنایا ہے، اس کے علاوہ کسی عہدے کی خواہش نہیں ہے۔ سیاسی مفاہمت کے سوال پر آرمی چیف کا نومئی کے واقعات کے تناظر میں مؤقف تھا کہ مصالحت سچے دل سے معافی مانگنے ہی سے ممکن ہے، غلطی کو تسلیم نہ کرنا شیطان کی پیروی کے مترادف ہے ۔ آرمی چیف نے موجودہ سیاسی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور وزیراعظم کی انتھک محنت اور دن میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے کو سراہتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ نے جنگ کے دوران جس عزم کا مظاہرہ کیا وہ قابل تعریف ہے۔ آرمی چیف کے اس اظہار خیال سے یہ حقیقت ہر شک و شبہ سے بالاتر ہوگئی ہے کہ ملک کاموجودہ نظام سیاسی اور عسکری قیادت کے درمیان مکمل ہم آہنگی کے ساتھ چل رہا ہے اور اس میں کوئی دراڑ پڑنے کا کوئی خدشہ دور دور تک نظر نہیں آتا لہٰذا افواہوں کا سلسلہ جاری رکھے جانے کی اب کوئی گنجائش نہیں ۔آرمی چیف کے انٹرویو سے ملک کی موجودہ خارجہ پالیسی کے انتہائی کامیاب نظر آنے کے باوجود عام طور پر محسوس کیے جانے والے اس خدشے کا بھی ازالہ ہوگیا ہے کہ امریکہ سے روابط میں غیر معمولی گرمجوشی کہیں چین سے تعلقات کو متاثر کرنے کا سبب تو نہیں بن جائے گی۔ اس ضمن میں فیلڈ مارشل کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چین اور امریکا سے تعلقات میں توازن برقرار رکھنے کا طویل تجربہ ہے، ایک دوست کیلئے دوسرے دوست کو قربان نہیں کریں گے۔

تازہ ترین