خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں تیز بارشوں اور بادل پھٹنے سے ندی نالوں میں منہ زور طغیانی آنے اور لینڈ سلائڈنگ کے واقعات نے جو تباہی مچائی اس پر پوری قوم سوگوار ہے۔ ایسی آفات سماوی سے بچاؤ کی تدابیر نہ صرف حکومت بلکہ پوری قوم کیلئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ جن علاقوں میں یہ قیامت ٹوٹی وہ تقریباً سب کے سب جنگلات سے ڈھکے ہونے کے سبب ماضی میں بڑی حد تک محفوظ تصور کئے جاتے تھے مگر ایک رپورٹ کے مطابق درختوں کی بے رحمانہ کٹائی نے پاکستان کو 18فیصد کمی سے جو دوچار کیا ہے یہ تباہی اسی کا منطقی نتیجہ ہے۔ ملک میں جنگلات کا رقبہ جو 1992ءمیں 5.78ملین ہیکٹر تھا کم ہو کر 2025 ءمیں 3.09ملین ہیکٹررہ گیا ہے۔ اس کی وجہ سے ماہرین کے مطابق ملک سنگین ماحولیاتی خطرات سے دوچار ہو چکا ہے ۔ پاکستان کے لئے جنگلات محض درختوںکا جھنڈ نہیں بلکہ یہ ما حولیات کے تحفظ، معیشت اور قومی سلامتی کی پہلی دفاعی لائن ہیں۔ جنگلات پانی کو جذب کر کے فلش فلڈز کو روکتے ہیں۔ زیر زمین پانی کوری چارج کرتے ہیں زرعی زمینوں کو کٹائو سے بچاتے ہیں اور مٹی کی زرخیزی کو برقرار رکھتے ہیں۔ آب و ہوا کے توازن کو قائم رکھتے ہیں۔ درجہ حرارت کم کرتے ہیں کاربن ذخیرہ کرکے موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کو روکنے میں مدد گاررہتے ہیں۔دیہی آبادی کے لئے چارہ، ایندھن، پھل ، دوائیں اور سیاحت کے مواقع فراہم کرتے ہیں ۔ سیلاب، لینڈ سلائڈنگ اور قحط کے خطرات سے بھی بچاتے ہیں۔ اس وقت عالمی اداروں کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ گیارہ ہزار ہیکڑ جنگلات کاٹے جارہے ہیں۔ چراگاہوں کا رقبہ 60فیصد کم ہوچکا ہے، اور یہ سب کچھ زیادہ تر غیرقانونی طور پر ہورہا ہے ۔ جنگلات کی بے پناہ افادیت سے بے بہرہ قانون شکن لوگوں کو اس کا احساس ہونا چاہئے اور حکومت کو سختی سے قانون کی عملداری قائم کرنی چاہئے۔