• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈیٹر جنرل کی حسابی غلطی یا پھر لاکھوں ارب روپے کی دھماکا خیز بے ضابطگیاں؟

انصار عباسی

اسلام آباد :…وفاقی حکومت کے کھاتوں کے حوالے سے آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی تازہ رپورٹ نے نہ صرف ہلچل مچا دی ہے بلکہ انکشافات اور حسابات پر بھی سوال اٹھا دیے۔ پاکستان کی مالی تاریخ میں شاید یہ پہلی مرتبہ ہے کہ اس قدر حیران کن اعداد و شمار سامنے آئے ہیں، رپورٹ میں وفاقی مالیات میں 375؍ ٹریلین یعنی 3؍ لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہ اس لحاظ سے بھی حیران کن ہے کہ پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) بمشکل 110؍ ٹریلین روپے ہے جبکہ مالی سال 24-2023ء کا وفاقی بجٹ صرف ساڑھے 14؍ ٹریلین روپے تھا۔ پھر یہ بے قاعدگیاں قومی بجٹ سے 27؍ گنا زیادہ کیسے ہو گئیں؟ رپورٹ میں ناقابل یقین بے ضابطگیوں کی فہرست پیش کی گئی ہے جن میں 284.17؍ ٹریلین (2 لاکھ 84؍ ہزار ارب) روپے خریداری سے متعلق مسائل کی مد میں، 85.6؍ ٹریلین (85600؍ ارب) روپے ناقص تاخیر زدہ یا نامکمل سول ورک پر، 2.5؍ ٹریلین (2500؍ ارب) روپے واجبات اور ریکوریوں میں، 1.2؍ ٹریلین (12000؍ ارب) روپے گردشی قرضے (سرکلر ڈیٹ) میں پھنسے دکھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ اربوں روپے انٹرنل کنٹرول کی کمزوری، اثاثہ جات کے ناقص انتظام، معاہدوں کے غلط استعمال اور سرکاری زمینوں پر قبضوں کی نذر ہوئے۔ دستاویزات میں تو یہ ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان بیک وقت کئی ملکوں کے مالیات سنبھال رہا ہو۔ لیکن حقیقتاً یہ کسی اور چیز کی طرف اشارہ ہے: یا تو یہ کوئی تباہ کن حسابی غلطی ہے، یا پھر ملکی مالیاتی ریکارڈنگ و آڈٹ کے نظام کی ساکھ منہدم ہو چکی ہے یا پھر قومی مالیاتی نظام مکمل طور پر برباد ہو چکا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایپروپری ایشن اکائونٹس میں 40.3؍ ٹریلین (40000؍ ارب) روپے کی حتمی منظوری دکھائی گئی ہے جبکہ اصل اخراجات 39.9؍ ٹریلین (39900؍ ارب) روپے رہے۔ یعنی صرف 370؍ ارب روپے کا فرق، لیکن کسی طرح یہ بے قاعدگیاں 375؍ ٹریلین روپے تک پہنچ گئیں۔ یہ حساب کتاب خود حکومت کے اندر بھی کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا۔ کئی لوگوں کے نزدیک یہ رپورٹ سوالات زیادہ اٹھاتی ہے اور جواب کم دیتی ہے۔ کیا اے جی پی نے غلطی سے اعداد ضرب دے دیے؟ کیا کئی برسوں کے اعداد ملا کر لکھ دیے گئے؟ یا یہ اس زوال پذیر مالیاتی نگرانی کے نظام کی عکاسی ہے جس میں اعداد و شمار حقیقت سے مطابقت نہیں رکھتے۔ جب اے جی پی آفس کے ترجمان سے اس بابت پوچھا گیا تو انہوں نے ادارے کے ایک ماہر کی آواز کا نوٹ شیئر کیا۔ اس نوٹ سے ظاہر ہوا کہ اے جی پی کے دفتر کو بے قاعدگیوں کی ان حیران کن بھاری رقوم پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ اے جی پی کے دفتر نے دی نیوز کو بتایا کہ مختلف نوعیت کی بے ضابطگیاں، بے قاعدگیاں اور مالی اصولوں کی خلاف ورزی، خرد برد، الاٹمنٹ سے خرچ تک، بعض اوقات بجٹ کی کُل رقم سے بھی زیادہ ہو جاتی ہیں۔ البتہ یہ واضح نہیں کیا گیا کہ بے قاعدگیاں 3؍ لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے کے ہندسے تک کیسے پہنچیں۔ یہ تمام اعداد آڈٹ سال 25-2024ء کی شائع شدہ رپورٹ کا حصہ ہیں جسے صدرِ پاکستان نے منظور کر لیا ہے اور اب یہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہونے کیلئے تیار ہے۔

اہم خبریں سے مزید