19 اگست2014 ءپاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ دن ہے جسے ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ وہ دن تھا جب اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے در و دیوار پر حملہ کیا گیااور یہ حملہ کسی غیر ملکی فوج یا کسی دہشت گرد تنظیم نے نہیں بلکہ اسی ملک کی ایک سیاسی جماعت اور اسکے کارکنان نے کیا۔ عمران خان کی قیادت میں پاکستان تحریک انصاف اور اس کے اتحادی دھرنے کے نام پر اسلام آباد میں موجود تھے۔ وہ دھرنا جو ابتدا میں انتخابی دھاندلی کے خلاف احتجاج کے طور پر پیش کیا گیا، رفتہ رفتہ ریاستی اداروں اور آئینی ڈھانچے پر حملے میں بدل گیا۔اس روز ہم نے دیکھا کہ کس طرح ریڈ زون کی حرمت پامال کی گئی۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی جیسے اہم قومی اداروں کو نشانہ بنایا گیا۔ پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا، بیریئرز توڑے گئے اور عوام کے منتخب ادارے کی دیواریں عبور کی گئیں۔ یہ سب کچھ اس وقت کے سیاسی نعروں اور ایک شخص کے اقتدار کے جنون کے تحت ہو رہا تھا۔ عمران خان اس سب کو "حقیقی آزادی" کا نام دیتے رہے، لیکن حقیقت میں یہ ایک منظم حملہ تھا جو جمہوریت، آئین اور ریاستی رٹ کو مفلوج کرنے کیلئے کیا گیا۔آج جب ہم 19 اگست کو یاد کرتے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ سب کچھ اچانک ہوا تھا یا اس کے پیچھے ایک منصوبہ بندی تھی؟ اس وقت کے حالات بتاتے ہیں کہ یہ سب پہلے سے طے شدہ تھا۔ دھرنے کا اسٹیج، تقاریر کا لہجہ، کارکنان کو دیے گئے اشارے، اور ریڈ زون تک رسائی کا مکمل منصوبہ سب کچھ واضح کرتا ہے کہ یہ ایک غیر روایتی سیاسی احتجاج نہیں بلکہ ایک سیاسی یلغار تھی۔مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اس کھلی بغاوت اور ریاستی اداروں پر حملے کے باوجود، اسی سیاسی جماعت کو بعد میں اقتدار بھی دیا گیا۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کو نہ صرف معاف کر دیا گیا بلکہ ملک کی باگ ڈور ان کے حوالے کر دی گئی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ریاست نے خود اپنی کمزوری ظاہر کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب اداروں کو یہ سمجھ لینا چاہیے تھا کہ جو جماعت جمہوری اداروں کی دیواریں توڑ سکتی ہے، وہ اقتدار میں آ کر ان اداروں کو مضبوط نہیں بلکہ مزید کمزور کریگی۔اقتدار ملنے کے بعد عمران خان کے دور حکومت نے یہ ثابت کر دیا کہ وہی سوچ اور وہی رویہ ان کے دل و دماغ میں زندہ ہے جو 19اگست کو ظاہر ہوا تھا۔ سیاسی مخالفین کو غدار اور چور قرار دینا، پارلیمنٹ کو غیر مؤثر بنانا، صحافت کو دبانا، اور اداروں کو اپنے تابع کرنے کی کوششیں اسی ذہنیت کا تسلسل تھیں۔ 19 اگست کو جس طرح پارلیمنٹ ہاؤس کی حرمت پامال کی گئی، اسی طرح ان کے اقتدار میں آئین کی روح پامال کی گئی۔
19 اگست کا واقعہ ہمیں یہ بھی یاد دلاتا ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنے طرز عمل میں دوہرا معیار ترک کرنا ہوگا۔ اگر کسی عام شہری یا کسی چھوٹی سیاسی جماعت کے کارکن نے یہ حرکت کی ہوتی تو شاید فوری طور پر گرفتاری، مقدمات اور سزائیں ہوتیں۔ لیکن اس دن کے بعد ہم نے دیکھا کہ بڑے سیاسی نعروں اور میڈیا بیانیے کے زور پر سارا معاملہ دھندلا دیا گیا۔ اسی رواداری نے ایک ایسے کلچر کو جنم دیا جس میں ریاستی رٹ کو چیلنج کرنا ایک ’’سیاسی حکمت عملی‘‘ سمجھا جانے لگا۔یہ بھی ایک تاریخی سچ ہے کہ عمران خان اور انکی جماعت کو اقتدار دینے کا فیصلہ ایک ادارہ جاتی غلطی تھی جسکے اثرات آج بھی پاکستان بھگت رہا ہے۔ اس غلطی نے نہ صرف جمہوری تسلسل کو نقصان پہنچایا بلکہ ریاستی اداروں کی ساکھ کو بھی متنازع بنایا۔ 19 اگست کو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا وہ کسی ایک جماعت یا ایک شخص کی انا کی تسکین کا معاملہ نہیں تھا، بلکہ یہ ایک علامتی پیغام تھا کہ اگر طاقت اور افرادی قوت ہو تو ریاستی ادارے بھی کمزور پڑ سکتے ہیں۔یہی سوچ بعد میں 9مئی کے واقعات میں اپنے عروج پر پہنچی۔ اگر 19اگست کے بعد سخت کارروائی ہوتی، اگر اس بغاوت کو اسی وقت قانون کے کٹہرے میں لایا جاتا، تو شاید 9 مئی نہ آتا۔ 9 مئی کی منصوبہ بندی، فوجی تنصیبات پر حملے، اور ریاستی املاک کو جلانے کا تصور اسی ذہنیت کی پیداوار ہے جو 19اگست کو پارلیمنٹ کے دروازوں پر حملہ آور ہوئی تھی۔آج ضرورت ہے کہ ہم بطور قوم اور بطور ریاست اپنے فیصلوں کا جائزہ لیں۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک ان عناصر کو رعایت دیتے رہیں گے جو ریاست کو کمزور کرتے ہیں۔ ہمیں یہ طے کرنا ہوگا کہ آئین اور قانون کی بالادستی محض نعرہ نہیں بلکہ عملی حقیقت ہونی چاہیے۔ ریاست کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ کوئی بھی شخص یا جماعت آئین سے بالاتر نہیں ہے۔اس دن کی یاد دہانی ضروری ہے تاکہ مستقبل میں کسی بھی سیاسی جماعت کو یہ حوصلہ نہ ملے کہ وہ عوام کے منتخب اداروں پر حملہ کرے اور پھر بھی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ سکے۔ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے ضروری ہے کہ قانون سب کیلئے برابر ہو، چاہے وہ کسی بھی سیاسی جماعت کا رہنما ہو یا کارکن۔19اگست کا سبق یہ ہے کہ ریاستی اداروں کو وقتی سیاسی مفاد کے بجائے آئین کی پاسداری کو ترجیح دینی ہوگی۔ عوام کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ جو جماعت آج اداروں پر حملہ کرتی ہے، وہ کل عوامی حقوق کی محافظ نہیں بن سکتی۔ سیاست میں اختلاف ہونا جمہوریت کا حسن ہے، لیکن اختلاف کی آڑ میں اداروں کی حرمت پامال کرنا ایک ایسی سرحد ہے جسے پار نہیں کیا جا سکتا۔