• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیلاب برصغیر کے ممالک پاکستان اور بھارت کے لیے کوئی نیا مسئلہ نہیں رہا۔ ہر سال مون سون کی بارشوں کے بعد دونوں ملکوں کے پنجاب اور دیگر علاقے طغیانی کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ کھیت اجڑ جاتے ہیں، بستیاں بہہ جاتی ہیں، معیشت مفلوج ہو جاتی ہے اور لاکھوں لوگ اپنی چھت، روزگار اور خاندان کی سلامتی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہ قدرتی آفت ہر سال ہماری کمزوریوں کو آشکار کرتی ہے اور ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ آخر ہم کب سبق سیکھیں گے۔ پاکستان کا پنجاب دریاؤں کی سرزمین ہے۔ راوی، چناب، ستلج اور بیاس ہمیشہ سے زراعت اور معیشت کا سہارا رہے ہیں۔ لیکن جب یہ دریا بارشوں اور پہاڑوں کی برف پگھلنے کے سبب طغیانی کا شکار ہوتے ہیں تو اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو ملیامیٹ کر دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں دریائے ستلج اور چناب کے کنارے پر رہنے والے لاکھوں افراد کو سیلاب نے بے گھر کیا۔ کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں، مویشی ڈوب گئے اور دیہات کے دیہات پانی میں غرق ہو گئے۔ یہ صورتحال اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ ہم نے نہ تو بندوں کو مضبوط کیا، نہ دریاؤں کے بہاؤ کو جدید انجینئرنگ کے مطابق قابو میں لانے کی کوشش کی اور نہ ہی بارشوں کی پیشگی اطلاع کو مؤثر بنایا۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال متاثرین کو خیمے، راشن اور وقتی امداد دے کر مسئلہ ختم سمجھ لیا جاتا ہے۔بھارت کی کئی ریاستیں بھی پاکستان کی طرح ہر سال سیلاب کی زد میں آتی ہیں۔ اتر پردیش، بہار، پنجاب اور آسام کے علاقے دریاؤں کے کنارے بسے ہوئے ہیں۔ دریائے گنگا اور برہم پتر کے بپھرنے سے لاکھوں خاندان متاثر ہوتے ہیں۔ شہروں میں بارش کے بعد پانی جمع ہو کر شہری زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے۔ بھارت کی بڑی معیشت اور ترقی یافتہ انفراسٹرکچر کے باوجود وہاں بھی سیلاب کے بعد ہزاروں افراد بے گھر ہو جاتے ہیں اور بیماریوں کا پھیلاؤ بڑھ جاتا ہے۔ یہاں بھی مسئلہ وہی ہے: ناقص منصوبہ بندی، بدعنوانی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو سنجیدگی سے نہ لینا۔ بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں سیلاب سے متاثرہ افراد کی داستانیں ایک جیسی ہیں۔ اگر ایک طرف پاکستانی کسان اپنی زمین ڈوبنے کا رونا روتے ہیں تو دوسری طرف بھارتی کسان بھی اپنی محنت ضائع ہونے کا غم بیان کرتے ہیں۔سیلاب کے اثرات صرف مالی نقصان تک محدود نہیں ہوتے بلکہ یہ انسانی المیہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ بے گھر ہونے والے خاندان خیمہ بستیوں میں غیر انسانی حالات میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں، بچے پڑھائی سے محروم رہتے ہیں، اور کئی بیماریاں جیسے ہیضہ، ڈینگی اور جلدی امراض عام ہو جاتے ہیں۔ ایک اور بڑا نقصان یہ ہے کہ متاثرہ افراد برسوں غربت کے شکنجے سے نکل نہیں پاتے۔ کھیت تباہ ہوں تو کسان مقروض ہو جاتے ہیں۔ مزدور جب روزگار سے محروم ہوں تو شہروں کی طرف ہجرت بڑھ جاتی ہے جس سے شہری مسائل میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات واضح ہو چکے ہیں اور جنوبی ایشیا اس کی سخت لپیٹ میں ہے۔ گلیشیر تیزی سے پگھل رہے ہیں، بارشوں کا نظام بدل رہا ہے اور درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ اس بدلتے ہوئے موسمی نظام نے سیلاب کو اور شدید کر دیا ہے۔ پہلے مون سون کی بارشیں مخصوص علاقوں تک محدود رہتی تھیں لیکن اب ان کی شدت اور دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں پہلے کبھی سیلاب نہیں آتے تھے وہاں بھی اب پانی بھرنے لگا ہے۔ اگر ہم نے ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدگی سے نہ لیا تو مستقبل میں سیلاب کی شدت اور تباہی کئی گنا بڑھ جائے گی۔پانی سرحدوں کا پابند نہیں ہوتا۔ دریاؤں کے بہاؤ کو روکنے یا قابو کرنے کے لیے دونوں ملکوں کو مل کر سوچنا ہوگا۔ بدقسمتی سے پاکستان اور بھارت کے درمیان سیاسی کشیدگی نے ایسے مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔ اگر دونوں ممالک ماحولیاتی ڈیٹا شیئر کریں، سیلاب کی پیشگوئی کے نظام کو مشترکہ طور پر بہتر بنائیں اور پانی کے بہاؤ کے انتظام میں تعاون کریں تو لاکھوں لوگوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اسی طرح مشترکہ ڈیم اور ری سروائر بنانے کے منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ڈیم نہ صرف سیلاب کے پانی کو روک سکیں گے بلکہ خشک سالی کے دنوں میں زراعت اور صنعت کے لیے پانی فراہم کریں گے۔ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب دونوں ملک اپنے عوام کے مسائل کو سیاست سے اوپر رکھیں۔سیلاب جیسے قدرتی مسئلے کو مکمل طور پر ختم کرنا ممکن نہیں، لیکن اس کے اثرات کو بہت حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کیلئے بنیادی اقدامات ناگزیر ہیں۔ سب سے پہلے بندوں اور حفاظتی پشتوں کو جدید انجینئرنگ سے مضبوط بنایا جانا چاہیے۔ چھوٹے اور درمیانے ڈیم تعمیر کیے جائیں تاکہ بارشوں کا پانی ذخیرہ ہو سکے۔ شہروں میں نکاسیٔ آب کے جدید نظام پر سرمایہ کاری کی جائے۔ سیلابی علاقوں کے مکینوں کو قبل از وقت محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا مؤثر نظام بنایا جائے۔ تعلیمی اور آگاہی مہمات کے ذریعے عوام کو سیلابی خطرات سے نمٹنے کے طریقے سکھائے جائیں۔ پاکستان اور بھارت کو سرحد پار تعاون کیلئے ایک مستقل فورم تشکیل دینا چاہیے تاکہ پانی کے وسائل پر تنازعہ کے بجائے تعاون کی فضا قائم ہو۔

سیلاب ایک فطری آفت ضرور ہے لیکن اسے انسان کی بدانتظامی اور لاپروائی نے مستقل عذاب بنا دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت اگر اپنی ترجیحات بدلیں اور عوام کی جان و مال کو اولین حیثیت دیں تو وہ وقت دور نہیں جب جنوبی ایشیا سیلاب کی تباہ کاریوں پر قابو پا سکے گا۔

تازہ ترین