• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آڈٹ رپورٹس پر تنازع سنگین، اے جی پی نے الزامات مسترد کر دیے

اسلام آباد …(انصار عباسی)  آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی)  اور قومی اسمبلی (این اے) سیکریٹریٹ کے درمیان سال 2024-25ء کی وفاقی آڈٹ رپورٹس پر سنگین تنازع پیدا ہوگیا ہے۔ سبکدوش ہونے والے اے جی پی نے غلطیوں اور غلط رپورٹنگ کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے، جبکہ اسپیکر اپنے اس فیصلے پر قائم ہیں کہ یہ رپورٹس خلاف ورزیوں کے باعث واپس بھیجی جائیں۔ روزنامہ دی نیوز میں قومی اسمبلی کے ترجمان کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے اے جی پی نے اس تاثر کو مسترد کر دیا کہ یہ رپورٹس واپس بھیجی گئی ہیں، اور اعداد شمار میں کوئی ’’غلطی‘‘ ہے۔ تنازع گزشتہ ماہ اس وقت شروع ہوا جب اسپیکر نے مالی سال 2023-24ء سے متعلق آڈٹ رپورٹس (آڈٹ ایئر 2024-25) اے جی پی کو واپس بھجوا دیں۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ نے اس کی دو وجوہات بتائی تھیں: رپورٹس وزارتِ پارلیمانی امور کے ذریعے بھیجنے کے بجائے براہ راست سیکریٹریٹ کو ارسال کی گئیں، اور ان رپورٹس کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل آن لائن شائع کر دیا گیا، جسے ’’ایوان کی توہین‘‘ قرار دیا گیا تھا۔ پیر کے روز جاری وضاحت میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے محکمے (ڈی اے جی پی) نے ان الزامات کو ’’بے بنیاد اور گمراہ کن‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ مالی سال 2023-24ء کی آڈٹ رپورٹس اور مالیاتی گوشوارے آئین کے آرٹیکلز 168 تا 171 کے مطابق وزیرِاعظم کے ذریعے صدرِ مملکت کو ارسال کیے گئے تھے۔ صدر مملکت نے 12؍ اپریل 2025ء کو ان رپورٹس کی منظوری دی جس کے بعد یہ رپورٹس دونوں ایوانوں کو بھیجی گئیں۔ اے جی پی کے مطابق، ان رپورٹس کو 13؍ اگست کے ایجنڈے میں شامل کیا گیا تھا لیکن اسی روز اجلاس ملتوی ہونے کے باعث پیش نہ ہو سکیں۔ بعد ازاں سیکریٹریٹ نے ہدایت دی کہ رپورٹس جمع کر کے پیش کیے جانے تک خفیہ رکھی جائیں۔ رپورٹ کے مطابق، سینیٹ کو بھیجی گئی رپورٹس تاحال سینیٹ سیکریٹریٹ کے پاس ہیں۔ اے جی پی آفس نے واضح کیا کہ اعداد و شمار میں کوئی غلطی نہیں۔ بتایا گیا ہے کہ مجموعی آڈٹ رپورٹ کی ایگزیکٹو سمری میں یہ رقوم بطور حوالہ درج کی گئیں تاکہ اسٹیک ہولڈرز سیکٹر وائز جائزہ لے سکیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آڈٹ رپورٹس مکمل معیارِ جانچ کے بعد تیار کی گئیں اور ان میں کوئی غلطی نہیں۔ تاہم، اے جی پی کی وضاحت قومی اسمبلی کے بنیادی اعتراض کو براہِ راست دور نہیں کرتی کہ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیشی سے پہلے ویب سائٹ پر کیوں عام کی گئیں۔ سیکریٹریٹ کے مطابق یہی بڑی وجہ تھی جس کی بنیاد پر رپورٹس واپس بھجوائی گئیں۔ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب مجموعی آڈٹ رپورٹ میں تین لاکھ 75؍ ہزار ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا ذکر سامنے آیا۔ یہ رقم وفاقی بجٹ 14.5؍ ٹریلین روپے سے 27؍ گنا زیادہ اور قومی جی ڈی پی 110 ٹریلین روپے سے تین گنا زیادہ ہے۔ حکومتی ذرائع کو شبہ ہے کہ ’’اے جی پی کے دفتر میں کوئی شخص غیر معمولی اعداد و شمار اور سرگرمی کے ذریعے حکومت کو شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘‘ سابق آڈیٹر جنرل جاوید جہانگیر نے بھی اس رقم کو ’’غیر معمولی‘‘ قرار دیتے ہوئے فوری نظرثانی کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ ان کے دور میں کبھی آڈٹ رپورٹس پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے قبل عام نہیں کی گئیں۔ موجودہ آڈیٹر جنرل اپنی مدتِ ملازمت ایک ہفتے میں مکمل کر رہے ہیں۔ نئے اے جی پی کا تقرر ہو چکا ہے اور توقع ہے کہ انہی کے فیصلے پر ان رپورٹس کی قسمت کا فیصلہ ہوگا۔

اہم خبریں سے مزید