• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قطر پر اسرائیل کا فضائی حملہ، امن مذاکرات میں شریک حماس کی مرکزی قیادت کو نشانہ بنایا گیا، ٹرمپ برہم

دوحا،کراچی (اے ایف پی، نیوزڈیسک ) اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحا پر فضائی حملہ کردیا، دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کی رہائشگاہوں کو نشانہ بنایا گیا، قطری دارالحکومت دھماکوں سے گونج اٹھا جبکہ آسمان پر دھویں کے بادل چھا گئے ،حملے کے وقت حماس کےچیف مذاکرات کار خلیل الحیا، خالد مشعل اور دیگر مرکزی رہنما امریکا کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی تجویز پر غور کیلئے ملاقات کررہے تھے ،حماس کا کہنا ہے کہ حملے میں خلیل الحیا کا بیٹا،3محافظ اور ایک معاون سمیت6افراد شہید ہوگئے جبکہ مرکزی رہنما محفوظ رہے ہیں اور دشمن اپنے عزائم میں ناکام رہا، قطر نے کہا ہے کہ حملے میں ان کا ایک سکیورٹی آفسیر بھی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں ،اسرائیل نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے امن مذاکرات میں شریک حماس کے مرکزی رہنماؤں کو نشانہ بنایا ہے ،اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ یہ حملہ یروشلم پر حملے کا جواب تھا،امریکا نے کہا ہے کہ انہوں نے حملے سے قبل دوحا کو آگاہ کردیا تھا تاہم قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ جس وقت انہیں آگاہ کیا گیا اس وقت حملہ شروع ہوچکا تھا،وائٹ ہاؤس کی ترجمان نے کہا ہے کہ ٹرمپ اپنے اتحادی کی سرزمین پر حملے سے متفق نہیں تھے،قطری وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ یہ مجرمانہ حملہ تمام بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی کھلی خلاف ورزی اور قطری شہریوں اور قطر میں مقیم افراد کی سلامتی و تحفظ کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے، قطری وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے خبردار کیا ہے کہ ان کا ملک دوحہ میں حماس پر اسرائیل کے مہلک حملے کا جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے،انہوں نے اسے خطے کے لیے ایک "اہم لمحہ" قرار دیا۔انہوں نے مزید کہا کہ قطر بلا خوف وخطرثالثی کا کردار ادا کرتے رہے گا۔وائٹ ہاؤس نے اسرائیل کے حملوں سے خود کو الگ کرتے ہوئے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادی قطر کے لیے حمایت کا اعادہ کیا، جبکہ اس بات کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا کہ آیا اسرائیل نے اپنے حملے سے قبل واشنگٹن کو آگاہ کیا تھا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر معمولی طور پر اسرائیل پر برہمی کا اظہارکیا ہے،وائٹ ہاؤس نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے اپنے اتحادی کی سرزمین پر فوجی کارروائی کے فیصلے سے متفق نہیں تھے اور انہوں نے حملوں سے قبل قطر کو پیشگی خبردار کر دیا تھا۔عالمی برادری نے حملے پرشدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے مجرمانہ اقدام قرار دیا ہے ،سعودی عرب ،ترکیہ ، چین، جرمنی، برطانیہ، فرانس، پاکستان، ایران ، متحدہ عرب امارات ،مصر،کویت، اردن ، عراق، مراکش، شام، یمن، الجزائر، لبنان، عمان،فلسطینی اتھارٹی، اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس،خلیج تعاون کونسل، اسلامک جہاد و دیگر ممالک اور تنظیموں نےحملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قطرکیساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔پاکستانی وزیراعظم شہباز شریف نے قطری امیر کو فون کرکےاسرائیلی حملوں کی مذمت کی ،قیمتی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان چٹان کی طرح قطری عوام کےساتھ کھڑا ہے۔  برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے کہا ہے کہ اس جنگ کو خطے میں مزیدپھیلنے کی اجازت نہیں دینا چاہئے۔وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری، کیرولین لیویٹ نے نامہ نگاروں کو ایک بیان پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ اگرچہ حماس کا خاتمہ ایک "قابل قدر ہدف" تھا، لیکن قطری دارالحکومت میں حملہ "اسرائیل یا امریکا کے مقاصد کو آگے نہیں بڑھاتا"۔"صدر قطر کو امریکا کا ایک مضبوط اتحادی اور دوست سمجھتے ہیں اور اس حملے کے مقام پر بہت افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔"وائٹ ہاؤس کی پریس سیکرٹری، کیرولین لیویٹ نے ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا، "صدر ٹرمپ نے فوری طور پر خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف کو آنے والے حملے کے بارے میں قطریوں کو مطلع کرنے کی ہدایت کی، جو انہوں نے کیا۔"انہوں نے کہا کہ امریکی فوج نے ٹرمپ انتظامیہ میں دیگر افراد کو اسرائیل کے آنے والے حملے سے آگاہ کیا تھا، لیکن انہوں نے بار بار یہ واضح کرنے سے انکار کیا کہ آیا فوج کو اسرائیل کی جانب سے پہلے آگاہ کیا گیا تھا۔اسرائیلی عہدیدار کا کہنا ہے کہ حملے سے قبل امریکا کو اعتماد میں لیا تھا جبکہ واشنگٹن نے حملے میں مدد بھی فراہم کی۔ حماس ذرائع کا کہنا ہے کہ حملہ اُس وقت ہوا جب حماس کے مذاکرات کار امریکا کی جانب سے پیش کی گئی تازہ ترین جنگ بندی کی تجویز پر غور کرنے کے لیے ملاقات کر رہے تھے۔

اہم خبریں سے مزید