سی ٹی ڈی سندھ کے سینئر افسر راجہ عمر خطاب ریٹائر ہو گئے۔
راجہ عمر خطاب 10 مارچ 1990ء کو سندھ پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، ان کا کیریئر کئی کامیابیوں سے مزین ہے۔
انہوں نے اپنی پیشہ ورانہ مہارت کے ذریعے ناصرف ادارے کا وقار بلند کیا بلکہ دہشت گردی اور سنگین جرائم کے خاتمے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا۔
راجہ عمر خطاب نے شہر میں ہونے والے دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث ملزمان کی گرفتاری اور کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورکس کو توڑنے میں اپنی ایک منفرد اور ممتاز شناخت بنائی۔
راجہ عمر خطاب کو ستارۂ شجاعت، تمغۂ شجاعت، صدارتی پولیس میڈل( پی پی ایم ) اور قائد اعظم پولیس میڈل ( کیو پی ایم ) سے بھی نوازا گیا، ان پر متعدد بار جان لیوا حملے بھی ہوئے۔
کراچی ایئر پورٹ حملہ، عاشورہ دھماکہ، سانحہ صفورا، امجد صابری قتل کیس، ملٹری پولیس پر حملوں کے کیسز، پولیس کلنگ، فرقہ وارانہ کلنگ، بوہری کیمونٹی پر حملے، چینی باشندوں پر حملوں سمیت متعدد ہائی پروفائل کیسز میں ملوث دہشت گردوں کو انہوں نے گرفتار اور ہلاک کیا اور کالعدم تنظیموں کے نیٹ ورکس کو بے نقاب کیا۔
کراچی جیسے شہر میں جہاں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان، بھتہ خوری سمیت سنگین جرائم نے شہریوں کی زندگی کو متاثر کیا وہاں راجہ عمر خطاب نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف کامیاب حکمت عملی اختیار کی۔
انہوں نے انسداد دہشت گردی کے یونٹ کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں کردار ادا کیا۔ ان کی خدمات کے صلے میں ان کے نام پر سی ٹی ڈی میں راجہ عمر خطاب کمپلیکس بھی قائم کیا گیا۔
راجہ عمر خطاب نے’جنگ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پہلی پوسٹنگ تھانہ گذری میں ہوئی اور بعد میں وہ نیو کراچی، سی آئی اے، اسپیشل برانچ، اے ٹی ڈبلیو، اے سی ایل سی ، سیکیورٹی سیل اور ایس آئی سی میں تعینات رہے۔
انہوں نے بتایا کہ 35 سالہ سروس میں ان کی پوسٹنگ ساڑھے 3 سے 4 سال مختلف تھانوں میں رہی اور اس کے بعد مختلف اسپیشلائزڈ یونٹس میں ان کی تعیناتی رہی۔ تعیناتی کے 4 برس بعد ان کی پہلی آؤٹ آف ٹرن پروموشن ہوئی۔
راجہ عمر خطاب کو سی آئی اے میں ڈاکٹر شعیب سڈل کے دور میں پہلا پولیس میڈل عطا کیا گیا۔ اُنہیں 9/11 کے بعد سی آئی ڈی میں تعینات کیا گیا اور تعیناتی کے ساتویں روز کالعدم لشکر جھنگوی کراچی کے امیر لال محمد عرف لالو کے ساتھ مقابلہ ہوا۔
بعد ازاں، حرکت المجاہدین اور امریکی قونصلیٹ پر حملے میں ملوث ملزمان کو بھی راجہ عمر خطاب نے پکڑا۔ انہوں نے القاعدہ، داعش، بی ایل اے، راء، لشکر جھنگوی، جند اللّٰہ، انصار الشریعہ، سپاہ محمد، سپاہ صحابہ کے نیٹ ورکس کے خلاف بھی نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
راجہ عمر خطاب نے فرقہ وارانہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ میں ملوث دہشت گردوں کو بھی گرفتار اور کئی کو مقابلوں میں ہلاک کیا۔
انہوں نے اپنے آخری کیس میں بھارتی خفیہ ایجنسی راء کے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا۔
راجہ عمر خطاب نے بتایا کہ ان کے والد بھی پولیس میں سپاہی بھرتی ہوئے تھے اور بطور اے ایس آئی ریٹائر ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ وہ وقت ہے جو میں نے سی ٹی ڈی میں گزارا، میں نے اپنی جان کو داؤ پر لگا کر اپنے خاندان کو پیچھے چھوڑ کر اور اپنے سکون کو قربان کر کے اس ادارے کے ذریعے ملک اور اس شہر کی خدمت کی لیکن میں اکیلا کچھ نہیں تھا، یہ سب میری ٹیم کی محنت، ایمانداری اور لگن کی وجہ سے ممکن ہوا۔
راجہ عمر خطاب کا کہنا تھا کہ ہمارے شہداء ہمارے اصل ہیرو ہیں، میں ان تمام شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتا ہوں اور ان کے خاندانوں کے لیے دعا گو ہوں۔
اُنہوں نے مزید کہا کہ میری پولیس کے اپنے ساتھیوں کو نصیحت ہے کہ اپنے کام پر عبور حاصل کریں اسی وجہ سے آپ کو عزت ملے گی۔ میرا شہر کراچی ہے جس نے بے شمار زخم کھائے ہیں لیکن پھر بھی یہ شہر بکھرا نہیں، ٹوٹا نہیں، میں نے پوری زندگی اس کے زخموں پر مرحم رکھنے کی کوشش کی ہے، میرا یہ شہر ہمیشہ آباد رہے۔
راجہ عمر خطاب آؤٹ آف ٹرن پروموشن کے ذریعے ایس ایس پی کے عہدے تک پہنچے تاہم بعد ازاں عدالتی حکم پر ان تمام افسران کی تنزلی کر دی گئی جس کے بعد وہ ڈی ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔