• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ اور این ایف سی ایوارڈ کا تعلق پاکستان کی وفاقی سیاست، معیشت اور صوبائی حقوق کے ایک نہایت اہم اور نازک پہلو سے ہے۔ جب بھی این ایف سی ایوارڈ کی بات کی جاتی ہے تو سب سے زیادہ احساس محرومی سندھ میں محسوس ہوتا ہے کیونکہ یہ صوبہ اپنی محنت، وسائل اور ریونیو کے لحاظ سے پورے وفاق کی ریڑھ کی ہڈی ہے لیکن جب تقسیم کا وقت آتا ہے تو سندھ کو اس کا جائز حصہ نہیں ملتا۔ این ایف سی ایوارڈ صرف ایک مالیاتی فارمولہ نہیں بلکہ یہ ایک ایسا آئینی فریم ورک ہے جس کے ذریعے وفاق اور صوبے اپنے حقوق و فرائض کا توازن قائم رکھتے ہیں۔ بدقسمتی سے سندھ کے عوام ہمیشہ یہ شکوہ کرتے رہے ہیں کہ اس توازن کو بگاڑنے میں وفاقی سطح پر اداروں اور دیگر صوبوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ سندھ کا سب سے بڑا شہر کراچی پورے ملک کا معاشی انجن ہے۔ کراچی واحد شہر ہے جو پورے پاکستان کیلئے سب سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرتا ہےلیکن جب یہ وسائل واپس لوٹائے جاتے ہیں تو سندھ کو اسکا متناسب حصہ نہیں ملتا۔ یہی وجہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کی ہر نئی بحث میں سندھ کے عوام اور سیاسی رہنما اپنے حقوق کیلئے سب سے زیادہ آواز بلند کرتے ہیں۔ سندھ کا بنیادی مؤقف یہ ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کی تقسیم صرف آبادی کی بنیاد پر نہیں ہونی چاہئے بلکہ اس میں ریونیو جنریشن، پسماندگی، غربت اور دیگر عوامل کو بھی شامل کیا جائے۔ سندھ کے عوام یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر صوبہ پورے ملک کو بجلی، گیس اور دیگر وسائل فراہم کر رہا ہے تو پھر اسے ترقیاتی بجٹ میں نظرانداز کیوں کیا جاتا ہے؟ وفاقی حکومتیں ہمیشہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ وسائل کی تقسیم آبادی کی بنیاد پر ہو لیکن سندھ کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ فارمولا انکے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سندھ کے دیہی علاقے آج بھی صحت، تعلیم، پانی اور بنیادی انفراسٹرکچر کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔

اگر سندھ کو اسکا جائز مالیاتی حصہ بروقت اور منصفانہ انداز میں دیا جائے تو یہ صوبہ نہ صرف اپنے عوام کی زندگی بہتر بنا سکتا ہے بلکہ پورے ملک کی ترقی میں زیادہ بہتر کردار ادا کر سکتا ہے۔ این ایف سی ایوارڈ کو صرف اعداد و شمار کی مشق نہ بنایا جائے بلکہ اسے ایک ایسا نظام ہونا چاہیے جو حقیقی مساوات اور انصاف پر مبنی ہو۔سندھ کے عوام کے ذہن میں یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ جب صوبے کے وسائل سے پورے ملک کی معیشت چل رہی ہے تو انکے حصے میں پسماندگی کیوں آتی ہے؟ گیس کی سب سے بڑی پیداوار سندھ سے ہوتی ہے لیکن گاؤں کے لوگ سلنڈر جلا کر کھانا پکانے پر مجبور ہیں۔ اسی طرح بجلی گھروں کیلئے کوئلہ اور گیس سندھ سے فراہم ہوتا ہے لیکن لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں سب سے زیادہ سندھ کے عوام تڑپتے ہیں۔ یہ تضاد ایک عام سندھی میں اس تلخی کو بڑھاتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے بھی صوبائی حقوق کو پوری طرح تسلیم نہیں کیا گیا۔ یہاں یہ حقیقت بھی قابل غور ہے کہ سندھ کے سیاسی رہنماؤں نے ہمیشہ این ایف سی ایوارڈ پر مضبوط مؤقف اختیار کیا ہے۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ سے اس ایشو کو اپنی سیاسی جدوجہد کا حصہ بناتی رہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لیکر بینظیر بھٹو اور پھر آصف علی زرداری تک ہر قیادت نے این ایف سی ایوارڈ کیلئے آواز اٹھائی۔ خاص طور پر 2010کا ایوارڈ جس میں پہلی مرتبہ ریونیو کلیکشن اور غربت جیسے عوامل کو بھی مدنظر رکھا گیا، سندھ کے مؤقف کی ایک بڑی کامیابی تھی۔ لیکن اسکے بعد سے وفاقی حکومتوں نے اس روح کو دوبارہ کمزور کر دیا ۔سندھ کے نقطہ نظر سے یہ بات بھی اہم ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کو محض وفاقی ڈومین میں نہ رکھا جائے بلکہ صوبوں کو بھی اس عمل میں بھرپور نمائندگی دی جائے۔ آئین پاکستان بھی یہی کہتا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ ہر پانچ سال بعد دیا جائے لیکن عملی طور پر اس پر عمل نہیں ہوتا، جسکا نقصان سب سے زیادہ سندھ کو اٹھانا پڑتا ہے۔ ایک اور پہلو جو سندھ کے عوام کیلئے تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ این ایف سی ایوارڈ کے باوجود صوبوںکوبراہ راست ٹیکس اکٹھا کرنے کے اختیارات محدود ہیں۔ سندھ چاہتا ہے کہ اسے اپنی بندرگاہوں، اپنی زمینوں اور اپنے وسائل پر زیادہ کنٹرول حاصل ہو تاکہ وہ اپنے لوگوں کی حالت بہتر بنا سکے۔ لیکن جب مرکز یہ اختیارات اپنے پاس رکھتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ صوبے اپنے ہی وسائل پر مکمل قابو نہیں رکھ سکتے۔ یہ احساسِ محرومی وفاق کو کمزور کرتا ہے اور صوبائی شناخت کو نقصان پہنچاتا ہے۔اگر این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے سندھ کے عوام کو انکا جائز حصہ ملتا رہے، اگر انکے وسائل کی قدر کی جائے اور اگر انہیں اپنے مالیاتی فیصلے کرنے کی آزادی دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ سندھ پاکستان کی ترقی کا سب سے بڑا ضامن نہ بنے۔ این ایف سی ایوارڈ کا بنیادی مقصد صوبوں کو یہ یقین دلانا ہے کہ ان کیساتھ انصاف ہو رہا ہے لیکن سندھ کے عوام اب بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ انصاف کہاں ہے؟ اگر یہ ایوارڈ اپنی اصل روح کے ساتھ نافذ نہیں ہوگا تو وفاق کیلئے مشکلات بڑھیں گی۔ سندھ ہمیشہ پاکستان کی بقا اور مضبوطی کا ضامن رہا ہے اورسندھ کے عوام کا یہ مطالبہ بالکل جائز ہے کہ این ایف سی ایوارڈ کو فوری طور پر اپڈیٹ کیا جائے، صوبوں کے مالیاتی حصے میں اضافہ کیا جائے اور سندھ کو اسکے وسائل کے حساب سے زیادہ فنڈز دیے جائیں۔ یہ نہ صرف سندھ کیلئے انصاف ہوگا بلکہ پاکستان کیلئے بھی مضبوطی کا راستہ ثابت ہوگا۔ ایک مضبوط سندھ ہی ایک مضبوط پاکستان کی ضمانت ہے اور این ایف سی ایوارڈ اس راستے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

تازہ ترین