بلند فشارِ خون (ہائی بلڈ پریشر) ایک عام لیکن خطرناک بیماری ہے جو دل اور شریانوں پر گہرا اثر ڈالتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف غذا اور ورزش ہی نہیں بلکہ طرزِ زندگی کے دیگر پہلو بھی بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
’جرنل آف دی امریکن کالج آف کارڈیالوجی میں‘ شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق متوازن طرزِ زندگی، جیسے کہ صحت مند خوراک، جسمانی سرگرمی اور ذہنی دباؤ کا بہتر انتظام، بلَڈ پریشر کی سطح کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے اور ادویات کی ضرورت بھی گھٹا سکتا ہے۔
غذائی عادات اور ورزش سے ہٹ کر یہ اقدامات بھی بلڈ پریشر پر اثرانداز ہوتے ہیں:
ذہنی دباؤ پر قابو
مسلسل تناؤ (اسٹریس) بلڈ پریشر کو بڑھا دیتا ہے، مراقبہ، یوگا یا گہری سانس لینے جیسی سرگرمیاں ذہنی سکون فراہم کر کے بلڈ پریشر کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
مناسب نیند
ناقص نیند یا نیند کی کمی بلڈ پریشر میں اضافے کا باعث بنتی ہے، روزانہ 7 سے 9 گھنٹے پُرسکون نیند لینے سے دل کی صحت بہتر رہتی ہے۔
تمباکو نوشی ترک کرنا
سگریٹ نوشی وقتی طور پر بلڈ پریشر کو بڑھاتی ہے اور خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتی ہے، تمباکو نوشی چھوڑنے سے دل اور رگوں کی صحت بہتر ہوتی ہے۔
بلڈ پریشر کی باقاعدہ نگرانی
گھر پر بلڈ پریشر چیک کرنے کی عادت ہائی بلڈ پریشر کی بروقت نشاندہی اور فوری علاج میں مدد دیتی ہے۔
وزن کو قابو میں رکھنا
اضافی وزن ہائی بلڈ پریشر کے خطرے کو دوگنا کر دیتا ہے، مناسب غذا اور ورزش کے ساتھ صحت مند وزن برقرار رکھنا دل کی بیماریوں سے بچاؤ کا مؤثر طریقہ ہے۔
کیفین کا استعمال محدود کرنا
کافی یا چائے میں موجود کیفین بلڈ پریشر کو وقتی طور پر بڑھا سکتی ہے، حساس افراد کے لیے کیفین کا کم استعمال بہتر ہے۔
پانی کی مناسب مقدار
جسم میں پانی کی کمی بلڈ پریشر پر اثر ڈال سکتی ہے، دن بھر مناسب مقدار میں پانی پینا دل کی صحت کے لیے ضروری ہے۔
سماجی تعلقات
اچھے سماجی تعلقات اور مثبت رشتے ذہنی دباؤ کو کم کرتے ہیں جس سے بلڈ پریشر بھی قابو میں رہتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ تمام عوامل غذا اور ورزش کے ساتھ مل کر ہی مؤثر ثابت ہوتے ہیں اور اگر ڈاکٹر نے ادویات تجویز کی ہوں تو اِنہیں جاری رکھنا بھی ضروری ہے۔
ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے جامع طرزِ زندگی اپنانا ہی صحت مند زندگی کی کنجی ہے۔
نوٹ: یہ مضمون عمومی معلومات کی فراہمی کے لیے ہے، کسی بھی طبی مشورے کے لیے ہمیشہ مستند معالج سے رجوع کریں۔