’’ آپ اگر فون بند کریںگی تو ابھی میں آپ کا نمبر سیز کردوںگا‘‘۔ یہ فقرہ ، میرے سارے پڑھنے والے دوست نوٹ کریں کہ ہر روز ہیکرز آدھے آدھے گھنٹے تک رنگ برنگے سوال کرتے رہتے ہیں اور فون کم از کم آدھے گھنٹے تک بند ہی نہیں کرتے ۔ وارننگ کی بات یہ ہے کہ نام لیتے ہیں بڑے افسرکا اور کہتے ہیں کہ پاکستان آرمی کو آپ کی تفصیلات اورپانچ لاکھ لوگوں کا ڈیٹا آج ہی دینا ہے ہزار کہو ’فون بند کردو یا اپنا نمبر دو‘ جواباً کہتےہیں آپ کو آپریٹ نہیں کررہیں ہم آپکا فون ابھی بند کردیتےہیں۔
ایسے فون اور فقرے ہر دوسرے چوتھے روز مجھے سننے پڑتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں شاید وہ ہر ریٹائرڈ خاتون کو تنگ کرتے ہوں اور وہ زبردستی فون بند بھی نہیں کرتے، کیا ہے علاج!
پاکستان میں سیلاب ایک لمحے میں شجاع آباد کے 140 دیہات بہا کے لیجاتا ہے یہ سیلاب اور طوفان پہلی دفعہ ایسا ظالم اور منحوس ہے کہ جو لوگ خیموں میں موجود ہیں انکو خوراک اور دیگر ضروری چیزیں شرائط پر ملتی ہیں۔ وزیر اعلیٰ یا بڑا افسر جو معائنہ کرنے جارہا ہوتا ہے اس کیساتھ 40 گاڑیاں سیکورٹی اور عملے کی ہوتی ہیں۔ ساتھ میں یہ علت ہیکرز کی روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ وہ کم ازکم 50 فیصد تو کامیاب ہوتے ہونگے کہ ان کا کاروبار چل رہا ہے۔ سائبر کرائم والوں کو ذراسختی کرنا پڑےگی ورنہ اس وقت سارے ریٹائرڈ لوگوں کا ڈیٹا ان کے پاس ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ملک سے باہرلےجانے والے ایجنٹوں کی طرح ان ورغلانے والوں کوبھی قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ وہ اتنی محنت کرکے لوگوں کا ڈیٹا جمع کرکے بلیک میل کرتے ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ آپ وہ فون مت سنیں مگر جس پہ بیتے ا س کو یہ خلفشار بھگتنا پڑتا ہے۔ذاتی سےاب اجتماعی صورتحال اور وہ بھی اس صدی کے سب سے ہولناک سیلاب کے بعد جبکہ موٹروے کی سڑکیں تو انکے مقابلے میں کچھ نہیں جو ہر ریلے میں ڈیڑھ سوگاؤں مع ساز وسامان ،کھینچ لےجاتے، ڈبو دیتے ہیں۔قیامت یہ کہ ہر ضلع سے متصل دیہات کے اجڑنے کا یہ منظر رہا۔ شروع ہوا بونیر اور دیامیر گلگت سے اور اب اُچ شریف، رحیم یار خان سے آگے کوٹری اور سکھر بیراج کے گرد مضافات کو فنا کررہا ہے ۔
میں کوئی بیس سال ہوئے،بہاماز میں تھی۔ وہاں ایسا طوفان آیا ہم سب کو ہیلی کوپٹروں کے ذریعےامریکہ منتقل کیا گیا،اگلےدودن بعد واپسی آئے تو دیکھا جن خوبصورت ہوٹلز میں ہم مقیم تھے وہاں چند پتھر تھے۔ پھر بہاماز دو مہینے میں بالکل تبدیل شکل میں سامنے تھا۔ ایسے ہی منظر اٹلانٹا اور ہیوسٹن میں بھی دیکھے،مگر وہ مستحکم تعمیرات تھیں۔ ہمارے کچے گھروں، جھونپڑوں اور کھیتوں کے پاس مویشیوں اور ڈیروں میں تو ایک جھکڑ برداشت کرنے کی سکت نہیں تھی۔ وہ اب تک پانی کے جوہڑ بنے ہیں۔ ہمارے صوبوں کے سربراہ بھی کشتی میںجا کر کھلے آسمان تلے بیٹھے خاندانوں کو چیک دےرہے ہیں۔ اس میں بھی عقلمندی یہ ہے کہ کیش تو B.I.S.Pکی طرح غائب کرنے والے بہت ہیں مگر چیک کیش کرانے کے لئے مڈل مین بہت ہیں کہ آدھے مجھے آدھے آپ کے۔ چیک کیش کراکرکے ابھی لایا۔ یہ علت عورتوں اور مردوں دونوں کو لگی ہوئی ہے۔
یہ طوفان جائے۔ زمین ذرا خشک ہو تو کاشتکار پل بھر میں واپس زمینوں پر آنا چاہتے ہیں۔ یہ موقع ہے کہ فوراً علاقے میں نئے تعمیراتی وژن کے ساتھ اقامت رکھنے والے عورتوں اور مردوں کو ملاکر لیبر بنائی جائے، اجرت دی جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جن ملکوں سے فنڈز آرہے ہیں انکی حکومت اور معماروں کو شامل کرکے پورے گاؤں کو نئے انداز میں ،اسکولز ،جانوروں کے مسکن اور گھروں میں بھی کفایت سے پناہ گاہوں کی طرز پر دوبارہ تعمیر کیا جائے وہاں ایک رات کے سیاح مسافر کے رہنے کا سامان بھی کیا جائے، بیڈ اور بریک فاسٹ کی طرز پر دو کمروں سے بڑے گھروں کی تعمیر میں رعایت رکھی جائے۔ ہمیں خدا کے حکم پر یہ توفیق ہونی چاہئے کہ ہٹ کی طرح گھر، ہوٹل اور صحت و تعلیمی مراکز بنائیں۔ انڈیا اور انڈونیشیا کی طرح پاکستان کے دیہات میں بھی شہر اور گائوں کا فرق کم ہو جائے۔ ہم سب جن کے پاس مری میں ٹھہرنے کے پیسے نہیں ، وہ قریبی گائوں کے ایک کمرے کو کرائے پر لیں اور صبح تازہ لسی اور تنوری پراٹھے کھا کے خوش رہیں، یوںیہ سلسلہ دونوں طرف آمدنی کا سبب بھی بنے گا اور وہ فاصلے جو نفرتیں بنے، شہروں اور دیہات میں زہر گھول رہے ہیں وہ فنا ہو جائینگے۔ ویسے فارم ہائوس والے اس تجربے کیلئے اسلئے تیار نہیں ہونگے کہ چک شہزاد میں کوڑیوں کے مول 20، 20کنال جگہ پر عیش کرنیوالوں کو یہ دیوانے کی بڑ محسوس ہوگی۔ ہم ہر دور میں نیا پاکستان کا نعرہ بلند کرتے رہے، وہ کرکے بھی تو دکھائیں۔ ہمارے ملک میں بہت سے بلڈر منہ چھپا کے بیٹھے ہیں کہ وہ’ آدھا میں آدھا تم‘ کھاکےاور خوشحال ہو جائیں ، اس وقت، سب کی محنت، ایمانداری اور غربت کو ڈھکنے کیلئے، فکر اور عملی سطح پر کام کرینگے تو میں یقین دلاتی ہوںکہ بہت سے رضا کار( اشتہار دیئے بغیر) مل جائینگے۔ چینیوں کی طرح اچھی لیبر، اچھا کام۔ ماہرین تعمیرات جو پل اور سڑکیں بنائیں۔ انکو بھی کہا جائے کہ آپ کا آدھا معاوضہ آپ کی مہارت کیساتھ شامل ہوگا۔ آپ یقین کریں، وہی سارے انجینئر، کاریگر اور لیبر، جو باہر جانے کیلئے ایجنٹوں کے ہتھے چڑھتے ہیں۔ وہ سب ذہنی طور پر اپنے ملک سے محبت میں واقعی نیا پاکستان بنا لیں گے۔