اسلام آباد ( نیوز رپورٹر)وفاقی وزیر برائے بحری امور محمد جنید انوار چوہدری نے کہا ہے کہ حکومت ماحول، معیشت اور عوام کے تحفظ کیلئے پائیدار پالیسیوں کے نفاذ کیلئے پرعزم ہے، سمندروں کے تحفظ اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے پائیدار اور ماحول دوست طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔انہوں نے ان خیا لات کا اظہار ورلڈ کلین اپ ڈے 2025کے موقع پر اپنے پیغام میں کیاجس کا موضوع سرکلر فیشن کے ذریعے ٹیکسٹائل اور فیشن ویسٹ کا تدارک ہے۔ وفاقی وزیر بحری امور نے کہا کہ سمندروں میں فیشن اور ٹیکسٹائل کا بڑھتا ہوا فضلہ نہ صرف سمندری حیات کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ماحولیاتی استحکام اور معیشت کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ماہی گیری کے شعبے میں صرف آلودگی سے ہونے والے نقصانات سالانہ 200 ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں ،حکومت ماحول، معیشت ، عوام کے تحفظ ،پائیدار پالیسیوں کے نفاذ کیلئے پرعزم ہے ،محمد جنید انوار چوہدری نے اس موقع پر وزیر اعظم پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی کو اولین ترجیح دینے کے عزم کو بھی سراہا اور کہا کہ ورلڈ کلین اپ ڈے ایک عالمی مہم ہے جو زمین اور سمندری کوڑا کرکٹ اور فضلے کے خلاف جدوجہد کے لیے منائی جاتی ہے، اور اس بار اس کا مرکز ٹیکسٹائل آلودگی کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر ہے،ہماری سمندری حیات براہِ راست ہماری عوام، معیشت اور کرۂ ارض کی فلاح سے منسلک ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ صنعتوں، پالیسی سازوں اور شہریوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ٹیکسٹائل اور فیشن کے فضلے کے خطرات کو تسلیم کریں اور ایک ایسا سرکلر اکانومی ماڈل قائم کرنے کے لیے مل کر کام کریں جو روزگار اور حیاتیاتی تنوع دونوں کی حفاظت کرے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان کا ٹیکسٹائل اور فیشن کا شعبہ جو دنیا کے بڑے شعبوں میں سے ایک ہے اور ملکی برآمدات کا تقریباً 60 فیصد پیدا کرتا ہے، فضلہ اور آلودگی میں بھی نمایاں حصہ رکھتا ہے۔ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹیکسٹائل کا فضلہ دریاؤں اور سمندروں میں مائیکروپلاسٹک کی آلودگی کا بڑا سبب ہے، جو مچھلیوں، مونگے اور ساحلی ماحولیاتی نظام جیسے اہم سمندری حیات کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔ہر سال ٹنوں کے حساب سے ٹیکسٹائل کا فضلہ لینڈ فلز اور پانی کی نالیوں میں پھینکا جاتا ہے۔ مصنوعی کپڑوں سے نکلنے والے مائیکروفائبرز سمندری جانور کھا جاتے ہیں جس سے غذائی زنجیر متاثر ہوتی ہے اور وہ انواع مزید دباؤ میں آ جاتی ہیں جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلی، حد سے زیادہ شکار اور رہائش گاہوں کی تباہی کا شکار ہیں۔وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مسئلہ صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ اقتصادی بھی ہے کیونکہ پاکستان کی بلیو اکانومی جس میں ماہی گیری، شپنگ، سیاحت، اور ساحلی صنعتیں شامل ہیں ، آلودہ پانی اور ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے بڑے نقصانات کا سامنا کر رہی ہے۔ماہی گیری (فشریز) کے شعبے میں صرف آلودگی سے ہونے والے نقصانات سالانہ 200 ملین امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکے ہیں۔