• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ 1970ء کے وسط کی بات ہے، سینٹ لوئیس میں قیام کے دوران ایک گھر یلو قسم کی ضیافت میں میری ملاقات ایک مختلف وضع قطع کی امریکی لڑکی سے ہوئی ۔ یہ شرمیلی سی لڑکی بہت خوبصورت تھی ، سرخی مائل گوری رنگت، ستواں ناک ،جھیل جیسی آنکھیں اور دراز قامت، اس کا نام لوری تھا۔ مجھے ضیافت میں موجود لڑکوں لڑکیوں میں وہ سب سے جدا گانہ اطوار اور وضع قطع کی محسوس ہوئی۔ اس نے اسکارف اوڑھا ہوا تھا، ہاتھوں میں سفید دستانے تھے اور وہ لانگ اسکرٹ پہنے ہوئی تھی۔ اسکا صرف چہرہ اور ٹخنے نظر آرہے تھے۔ اس سے تعارف ہوا تو پتہ چلا کہ اسکا تعلق عیسائیوں کے ایک فرقے پینٹی کاسٹ سے ہے۔ اس فرقے کی خواتین و حضرات سگریٹ نہیں پیتے ، شراب نوشی نہیں کرتے، غیر محرم سے گلے نہیں ملتے اور اس کے ساتھ رقص نہیں کرتے۔ امریکہ کے مادر پدر آزاد معاشرے میں مجھے اس لڑکی کا وجود ایک عجوبہ سا لگا بلکہ میں نے اس میں ایک کشش سی محسوس کی، جب میں نے اسے بتایا کہ ہماری لڑکیاں بھی عمومی طور پر تمہاری طرح جسم ڈھانپ کر رکھتی ہیں اور انکی اقدار بھی وہی ہیں جو تمہاری ہیں تو وہ بہت خوش ہوئی۔ امریکی عوام زیادہ تر انٹروورٹ ہوتے ہیں انہیں باہر کی دنیا سے نہ زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اور نہ وہ اس کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں نہ جاننا چاہتے ہیں تاہم پڑھے لکھے اکثر امریکی باخبر نظر آتے ہیں۔ لوری ایک پڑھی لکھی لڑکی تھی۔ سو وہ پاکستان کے بارے میں جانتی تھی لیکن ظاہر ہے کہ اسکی معلومات سرسری نوعیت کی تھیں ۔ ہم نے ایک دوسرے سے پوچھا کہ کیا کام کرتے ہیں۔ کہاں رہتے ہیں بلکہ فون نمبرز کا بھی تبادلہ ہوا۔ مجھے یہ جان کہ خوشی ہوئی کہ وہ بھی نیچرل ویسٹ بریج ہی کے علاقے میں رہتی ہے مجھے بہت حیرت ہوئی بلکہ اس حیرت کو خوشگوار ہی کہا جاسکتا ہے کہ اس ملاقات کے اگلے ہی روز اس کا فون آگیا۔ اس نے پو چھا تم مصروف تو نہیں ہو میں نے بتایا کہ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے، چنانچہ میں گھر پر آرام کر رہا ہوں ۔ اس نے پوچھا کیا میں تمہاری عیادت کیلئے آسکتی ہوں ؟ میں نے دل میں کہا ’’سو بسم اللہ‘‘ اور اسے آنے کی اجازت دے دی، تھوڑی دیر بعد وہ میرے سامنے کھڑی تھی ، اسی یونیفارم میں جس میں، میں نے اسے دیکھا تھا، لیکن آج اسکے چہرے کی ضیا کچھ زیادہ تھی۔ اس نے کہا ’’تم صوفے پر لیٹ جاؤ میں تمہارے لئے دعا کرتی ہوں‘‘مگر میں بیٹھا رہا اس نے آنکھیں بند کیں اور گیان دھیان میں مصروف ہو گئی۔اس کے ہونٹ ہل رہے تھے اور وہ کچھ پڑھ رہی تھی دعا کے بعد اس نے کہا ’’تم دیکھنا یسوع مسیح تمہیں ابھی شفا دے گا‘‘ وہ بہت دیر تک میرے پاس بیٹھی رہی۔ ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے رہے۔ ایسے لگتا تھا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ شاید اسکی ایک وجہ ہم دونوں کے مزاج کی ہم آہنگی بھی تھی۔ وہ مجھ سے تین سال چھوٹی یعنی 24 سال کی تھی، دیکھنے میں بہت سنجیدہ لیکن اس کی طبیعت میں مزاح کی فراوانی تھی۔ اس ملاقات کے بعد بھی ہم ملتے رہے۔ کبھی سینٹ لوئیس کی مشہور آرچ کے نیچے کبھی فاریسٹ پارک میں اور کبھی کسی ریستوران میں ، تاہم ان ملاقاتوں میں میں نے ایک بات بہت شدت سے محسوس کی اور وہ یہ کہ کبھی بالواسطہ اور کبھی بلا واسطہ وہ مسیحیت کی تبلیغ کرتی رہتی تھی۔ ایسے مواقع پر میں ہنسنا شروع کر دیتا، جس پر وہ ناراض ہو جاتی۔ ایک دو بار مجھے شک گزرا کہ وہ شاید مجھ پر اس کام کیلئے مامور ہے اور پھر ایک دن اس نے مجھ سے کہا میں تمہیں اپنا چرچ دکھانا چاہتی ہوں۔ کیا تم میرے ساتھ چلو گے؟ میں نے ہامی بھر لی، چرچ سے واپسی پر لوری نے مجھے مخاطب کیا اور پوچھا تمہیں یہ سب کچھ کیسا لگا؟’’ میں نے جواب دیا۔ بہت اچھا لگا، مجھے عبادت کرنے والے لوگ ان لوگوں کی نسبت بہت اچھے لگتے ہیں جو صرف پیسے کی پوجا کرتے ہوں‘‘ پھر اس نے اچانک مجھ سے پوچھا ’’میں تمہیں کیسی لگتی ہوں؟ ‘‘مجھے یوں لگا جیسے مجھے 440 وولٹ کرنٹ لگا ہو، کیونکہ میرے اس کے تعلقات کی نوعیت بالکل مختلف تھی۔ میں نے اسے کبھی ایسی نظروں سے دیکھا ہی نہیں تھا۔ اسکے علاوہ اسکے دیکھنے سے میری جمالیاتی حس کی تسکین بھی ہوتی تھی اور ایک اچھی گفتگو کرنے والی لڑکی سے ملنا جلنا مجھے ہشاش بشاش رکھتا تھا اور بس، چنانچہ میں اسکے سوال سے بوکھلا گیا اور پوچھا’’کیا مطلب؟ ‘‘ اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا بس منہ دوسری طرف پھیر لیا۔میں نے واپس پاکستان جانے کا ارادہ کر لیا۔ اباجی کے اداسی سے بھرے ہوئے خطوط مجھ سے پڑھے نہیں جاتے تھے۔ میرے سب پاکستانی دوست مجھے منع کرتے رہے کہ تمہیں واپس جا کر دوبارہ 323 روپےماہانہ کی سب ایڈیٹری کرنا پڑئیگی لیکن یہ سب کچھ مجھے گوارا تھا۔جس دن میری فلائٹ تھی اس دوپہر لوری مجھے ملنے آئی ۔ وہ سفید کپڑوں میں ملبوس تھی اس دن اس نے مجھ سے زیادہ بات نہیں کی صرف اتنا پوچھا ’’ تم واقعی واپس جا رہے ہو؟‘‘ میں نے دھیمے لہجے میں جواب دیا ’’ہاں‘‘اس نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں سے ایک کتاب نکال کر مجھے دی۔’’ یہ بائبل مقدس ہے تم اسے پڑھنا نہ پڑھنا لیکن اپنے ساتھ ضرور رکھنا اور اسے بھی یادرکھنا جس نے یہ تحفہ تمہیںدیا تھا‘‘ اور پھر وہ دیکھے بغیر واپس چلی گئی ۔ یہ کالم لوری کیلئے ہے، اسے یاد دلانے کیلئے کہ میرے پاس اسکی دی ہوئی مقدس بائبل ابھی تک محفوظ ہے اور خوشگوار یادیں بھی میرا اثاثہ ہیں جنکی پاکیزگی سے مجھے اپنے گناہ دھلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔

تازہ ترین