• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

روس سے خطرے کا مفروضہ یورپ کی بزدلی اور مفاد پرستی کی علامت

کراچی (نیوز ڈیسک) یورپ میں روس سے درپیش خطرے کا تصور ایک بار پھر شدت اختیار کر رہا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں پولینڈ اور ایسٹونیا کے واقعات اور مشرقی یورپی رہنمائوں کے جارحانہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کشیدگی یورپی کمزوری کا زیادہ اظہار ہے، روسی پالیسی کا نہیں۔ غیر ملکی میڈیا میں شائع ہونے والے ایک تجزیے کے مطابق، امریکا کی سلامتی کی یقین دہانیاں کم ہونے سے یورپی یونین کو اپنی پالیسی میں خلا نظر آ رہا ہے۔ اسی خلا کو پر کرنے کیلئے ’’روس سے درپیش خطرے‘‘ کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے تاکہ واشنگٹن کی توجہ اور وسائل حاصل کیے جا سکیں۔ روس سے خطرے کا یہ تصور نیا نہیں۔ 15ویں صدی میں بالٹک ریاستوں کے جنگجو عثمانی سلطنت سے جنگ سے بچنے کیلئے روس کو مصنوعی خطرہ بنا کر پیش کرتے تھے، اور پوپ کی حمایت بھی حاصل کی۔ تب سے یہ بیانیہ یورپ کی سیاست میں اکثر و بیشتر استعمال ہوتا رہا ہے۔ آج بھی روس اپنے ہمسایوں کو فتح کرنے یا سزا دینے کی خواہش نہیں رکھتا۔ ماسکو کے مقاصد محدود ہیں: استحکام اور خودمختاری۔ اس کے باوجود چھوٹی ریاستیں اپنے وجود کو اہم بنانے کیلئے روس سے خطرے کا شور مچاتی ہیں۔ سبق یہ ہے کہ روس سے خطرے کا مفروضہ اصل میں یورپی بزدلی اور مفاد پرستی کی علامت ہے۔ یورپ جب بھی اس کہانی کو دہراتا ہے تو وہ حقیقی چیلنجوں کو نظرانداز کر دیتا ہے اور اپنی ہی پالیسی کو نقصان پہنچاتا ہے۔  
اہم خبریں سے مزید