پیرس ( رضا چوہدری ) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے روس اور چین کے اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے جس کا مقصد ایران پر دوبارہ پابندیاں لگانے کے عمل کو مؤخر کرنا تھا۔لہذا اقوام متحدہ نے ایک بار پھر ایران پر وہ تمام پابندیاں نافذ کر دی ہیں جو 2015 کے جوہری معاہدے کے بعد اٹھا لی گئی تھیں۔اقوام متحدہ کی ایران پر پابندیاں پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کر سکتی ہیں، نئی پابندیوں کے بعد پاکستانی کمپنیوں کے لیے ایران سے براہِ راست تیل، گیس یا دیگر مصنوعات خریدنا مزید مشکل ہو جائے گا ۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی کی جانب سے “snapback” میکانزم کے استعمال کے بعد یہ فیصلہ متوقع تھا، لیکن اس کے اثرات محض ایران تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ پورے خطے اور عالمی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لیں گے۔ایران کی معیشت پہلے ہی امریکی اور یورپی پابندیوں کی زد میں ہے۔ اب اقوام متحدہ کی پابندیوں کے باعث ایران کے لیے توانائی برآمدات، غیر ملکی سرمایہ کاری اور مالیاتی لین دین مزید مشکل ہو جائیں گے۔ ایرانی ریال پر دباؤ بڑھے گا اور افراطِ زر عوام کی زندگی کو مزید کٹھن بنائے گا۔ایران نے اپنے سفیر برلن، پیرس اور لندن سے واپس بلا کر واضح پیغام دیا ہے کہ تعلقات شدید تناؤ کا شکار ہیں۔ امریکہ اس فیصلے کو اپنی پالیسی کی کامیابی کے طور پر پیش کرے گا، جبکہ ایران روس اور چین کی طرف مزید جھکاؤ اختیار کرے گا۔ تاہم ماسکو اور بیجنگ کھل کر ایران کی حمایت کرنے میں محتاط رہیں گے تاکہ وہ خود عالمی دباؤ کا نشانہ نہ بنیں۔پابندیاں ایران کے اندرونی سیاسی منظرنامے کو بھی متاثر کریں گی۔ بڑھتی مہنگائی اور بیروزگاری عوامی بے چینی کو ہوا دیں گی، جس کا جواب حکومت مزید سختی اور کنٹرول کے ذریعے دینے کی کوشش کرے گی۔ اصلاح پسند اور قدامت پسند حلقوں کے درمیان تقسیم بھی بڑھ سکتی ہے۔یہ فیصلہ عالمی برادری کے سامنے ایک اہم سوال کھڑا کرتا ہے: کیا پابندیاں ایران کو جوہری معاہدے پر واپس لا سکیں گی، یا پھر یہ دباؤ ایران کو مزید سخت مؤقف اختیار کرنے پر مجبور کرے گا؟ مشرقِ وسطیٰ پہلے ہی تنازعات اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ ایسے میں ایران کو مزید کونے میں دھکیلنا خطے میں کشیدگی بڑھا سکتا ہے۔ایران پر پابندیاں لگانا شاید عالمی طاقتوں کے لیے وقتی کامیابی ہو، مگر اس کے دیرپا نتائج غیر یقینی ہیں۔ یہ وقت ہے کہ دنیا صرف دباؤ کی پالیسی پر انحصار کرنے کے بجائے، سفارتکاری کے دروازے کھلے رکھنے پر غور کرے۔