• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اخبار پڑھنے کا شوق اسکول کے زمانے سے رہا، گھر میں ان دنوں بھی جنگ اخبار آتا تھا مگر خبریں محض سیاسی یا کھیلوں کی ہی نہیں ہوتی تھیں۔ سیاسی سوچ بنانے میں خاندان کے کئی بزرگوں نے بڑی مدد کی جن میں میرے ماموں سعید محمد مہدی، پروفیسر نصیر، پروفیسر جمال نقوی اور خالہ ڈاکٹر عالیہ امام نمایاں شخصیات تھیں۔ والد مرزا عابد عباس ماہر تعلیم تھے درس و تدریس اور شعر وادب سے تعلق رہا جنہوں نے ہم بھائیوں کی تربیت میں اہم کر دار ادا کیا ۔ ہماری والدہ کا ایک ٹریفک حادثے میں اس وقت انتقال ہوا جب میں غالباً کلاس 4 میں تھا۔ آج میں جس ’سفر‘ کا ذکر کرنے جارہا ہوں اسے میں نے محسوس کرنا اسکول کے زمانے سے ہی شروع کیا جب 1970ء کے الیکشن ہوئے۔ مجھے تو یاد نہیں مگر خالہ بتاتی ہیں بچپن میں بھی انہوں نے مجھے ’ایوب خان‘ کے خلاف نعرہ لگاتے سنا ہے جب حکومت نے رات گئے اعلان کیا کہ ’’عید کا چاند نظر نہیں آیا‘‘ ان 60؍ برسوں میں بہت کچھ دیکھا بحیثیت طالب علم بھی اور پھر خاص طور پر جب 1982ء میں عملی صحافت کا آغاز کیا ۔ زمانہ ’سنسرشپ‘ سے جو آج اس سے بھی زیادہ بدتر ہے ۔ بہت ہفتوں سے سوچ رہا تھا اس پر لکھنا شروع کروں کچھ ’شیئر‘ کر دیتا ہوں باقی انشاء اللہ جب اپنی ’سوانح‘ لکھوں گا۔ آج نہ صحافت رہی ہے نہ سیاست، بس گلشن کا کاروبار چل رہا ہے۔ کیا بدقسمتی ہے جو ملک جمہوریت کے نام پر ایک جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آیا وہاں جمہوریت ہی نہیں آنے دی گئی۔

خیر اس پر آخر میں آئوں گا پہلے جو میں نے ان برسوں میں دیکھا۔ اسکول کے زمانے میں حیدرآباد میں ہمارا اسکول ’سینٹ بونا ونچر‘ اکثر حملوں کی زد میں رہتا جب بھی کوئی احتجاج یا ہڑتال کی کال دی جاتی یہاں مظاہرین ضرور آتے جسکی ایک بڑی وجہ اس کا نام تھا۔ بہرکیف ہماری خوشی صرف اتنی سی ہوتی کہ جیسے ہی نعروں کی آوازیں آنا شروع ہوتیں اسکول کی چھٹی ہوجاتی۔ 1970ء کے انتخابات کا اعلان ہوا تو پہلی بار پوری ٹرانسمیشن پی ٹی وی پر دیکھنے کو ملی اور اسکے درمیان طنزومزاح سے بھرپور پروگرام۔ گھر میں الیکشن پر بھرپور گفتگو سننے کو ملتی ہماری بہت زیادہ اس عمر میں دلچسپی نہیں تھی نہ ہی ہم شریک گفتگو ہوسکتے تھے مگر بھٹو،مجیب، مولانا بھاشانی، ولی خان، مولانا مودودی کے ناموں سے آشنائی ہوئی۔ تصور کریں اس زمانے کے سیاستدانوں کا رہن سہن کیا تھا اور آج کیسا ہے۔ ہمارے دوست اختر وقار عظیم جنہوں نے پی ٹی وی میں اک عمر گزار دی، نے ایک بار بتایا کہ 70ء کے الیکشن کے وقت وہ سیاسی جماعتوںکے سربراہوں کے انٹرویو کر رہے تھے کہ انہیں ایک دن پتا چلا کہ مولانا بھاشانی کراچی آئے ہوئے ہیں اور لیاقت آباد میں اپنے دوست کے گھر ٹھہرے ہوئے ہیں۔ انٹرویو لینے پہنچے تو سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ کیمرہ کہاں لگائیں گھر ہی اتنا چھوٹا تھا اب تو گھروں میں جلسے ہوجاتے ہیں۔

1971ء کی جنگ ہوئی تو میں اس وقت 8؍ویں جماعت میں تھا۔ مشرقی پاکستان کی خبریں یا تو آتی نہیں تھیں یا مجیب کیخلاف ہوتیں تو ایک طرح سے یہاں کے لوگ وہاں کے حالات سے بے خبر تھے اور یہی صورتحال وہاں بھی تھی۔ جنگ کے ماحول میں ہم محلے کے دوست ’’بلیک آئوٹ‘‘ کے زمانے میں تقریباً رتجگا کیا کرتے تھے جس میں بہت سی شرارتیں بھی شامل تھیں۔ سیاست کا پہلا بڑا جھٹکا یا یوں کہیں کہ سمجھ بوجھ اس وقت آئی جب 16؍ دسمبر کی خبر آئی کہ مشرقی پاکستان الگ ہوگیا۔ ہم 24؍سال میں ہی تقسیم ہوگئے اکثریت اقلیت سے الگ ہوگئی۔ ایک ’شام غریباں‘ کاسا منظر تھا اس رات اور ہر طرف گلی، محلوں یہاں تک کہ اسکول میں بھی بحث کا موضوع ...اک بار پھر ہوئے ہم تقسیم...اک بار پھر ہوا دل دو نیم۔

پھر ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر سنی کیونکہ گھر میں ریڈیو بھی تھا اور ٹی وی بھی ۔ اب ذرا سیاسی گفتگو میں دلچسپی لینا شروع کی مگر بہت زیادہ نہیں کیونکہ اسکول اور پھر کرکٹ، ہاکی کے بعد وقت ہی نہیں ملتا تھا ۔تاہم گھر میں یا خاندان میں سیاست پسندیدہ موضوع تھا اور وہ بھی جہاںبائیں بازو کے نظریات رکھنے والے خاندان ہوں۔

اسکول سے کالج میں آئے تو بھٹو صاحب کی حکومت بن چکی تھی اور یہ وہ زمانہ تھا جب کئی قومی پالیسیاں سننے کو ملیں اب تو پالیسی ہی نہیں آتی۔ اتفاق اور اختلاف اپنی جگہ مگر کم از کم تعلیمی پالیسی، لیبر پالیسی، معاشی روڈ میپ پہلی بار ٹی وی پر مزدوروں اور کسانوں کے ترانے سننے کو ملے۔ ایسا محسوس ہوا کہ مرجھائی ہوئی قوم میں دوبارہ جوش و ولولہ آگیا ہو۔مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے بھٹو بہت جلدی میں ہیں جس بات کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ پہلے چھ مہینوں میں ہی عبوری آئین اور پھر سال بھر میں ایک متفقہ آئین 1973ء، دوسرے وہ پالیسیاں جس کا پہلے ذکر کیا، اچانک بھارت جانا پارلیمنٹ کو اعتماد میں لیکر شملہ معاہدہ کرآنا پھر اسلامی سربراہی کانفرنس نے تو جیسے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اچانک بھارت کے ایٹمی دھماکے کے بعد ’’ایٹمی پروگرام‘‘ کا شروع کرنا۔لٹریچر اور کلچر، سینما کے محاذ پر اداروں کا قیام۔ مگر ساتھ ہی کچھ ایسی پالیسیاں جنہوں نے بھٹو اور حکومت کو سخت نقصان پہنچایا اور خود ان کی جماعت کو مثلاً قابل اعتماد ساتھیوں جے اے رحیم، معراج محمد خان، محمود علی قصوری و دیگر کا پارٹی سے نکل جانا، ایمرجنسی جاری رکھنا، پریس کو دبانا، صحافیوں کی گرفتاریاں، کالے قوانین کا جاری رکھنا اور سیاسی مخالفین کیساتھ برا سلوک۔ سب سے بڑھ کر بغیر تیاری تعلیمی اداروں کو قومیانے کی پالیسی سے سیاست نے نیا رخ لے لیا اور اس میں سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت ختم کرنے اور نیپ کے لیڈروں کی گرفتاری اور پارٹی پر پابندی پھر فوجی آپریشن ان اقدامات نے بھٹو اور پی پی پی کی سیاست کو نقصان پہنچایا۔ اسی طرح سندھ لینگویج بل اور کوٹہ سسٹم کے نفاذ نے ’’لسانی رخ‘‘ اختیار کرلیا اور شہری سندھ اور دیہی سندھ کی اصطلاحیں زبان سے جوڑ دی گئیں جسے شہروں میں مذہبی سیاسی جماعتوں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان نے پی پی پی کیخلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا اور صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ کئی بار کرفیو لگانا پڑا۔

یہ کالج کا زمانہ تھا اور بحیثیت طالبعلم سیاسی حالات پریشان کررہےتھے کہ آخر ہم کس سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بھٹو کی تقاریر سننے کا اتفاق 1977ء میں ہوا ساتھ میں اپوزیشن رہنمائوں کی بھی۔ بھٹو سے کبھی ذاتی ملاقات نہ ہو پائی مگر محسوس ہورہا تھا کہ اس کے چاہنے والے بھی بہت ہیں اور نفرت کی حد تک اختلاف رکھنے والے بھی بہت۔ یوں 1977ء آگیا جب ’خبر‘ آئی کہ بھٹو نے اپنی پانچ سال کی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی عام انتخابات کا اعلان کردیا۔ پھر ایک بھرپور انتخابی مہم دیکھنے کو ملی بشمول کراچی کے دو تاریخی جلوس بھٹو کا اور اصغر خان کا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین