پشاور/اسلام آباد(ارشدعزیزملک/طاہرخلیل ) پاک فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاہے کہ بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی ‘افغان مہاجرین کی واپسی پر سیاست کی جاتی ہے ‘کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کیلئے پاکستان اور خیبرپختونخوا کے عوام کے جان‘ مال اور عزت آبرو کا سودا کرے‘خارجی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی عہدے پر ہو، اس کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی‘اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا‘ایسا نہیں ہوسکتا کہ خیبر پختونخوا میں ایک ایسی قیادت لائی جائے جو ریاست کے خلاف ہو کیونکہ اسٹیبلشمنٹ بھی ریاست کا ایک ادارہ ہے‘پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں کو کسی سیاسی شعبدہ بازی سے پریشان نہیں کیا جاسکتا ‘اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو کوئی غزوہ ہوتی‘ نہ جنگیں ہوتیں اور نہ مہمات ہوتیں‘پاکستان کے عوام نو مئی کے مقدمات کے سب سے بڑے ضامن ہیں‘ریاست اس کی ضامن ہے‘ نو مئی میں ملوث لوگ اپنے کیفر کردار تک پہنچ رہے ہیں‘دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی‘ شدت پسندوں سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی ‘بھارت افغانستان کو پاکستان میں دہشت گردی کے اڈے کے طورپر استعمال کررہاہے ‘تمام سیاستدان قابل احترام ہیں لیکن کسی کی سیاست ریاست سے اوپر نہیں ہے‘اگر کوئی پارٹی یا شخص یہ سمجھتا ہے اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو پھر ہمیں یہ قبول نہیں‘سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کا کورٹ مارشل جاری ہے‘اس میں تاخیر پر کوئی پریشانی نہیں ‘سندھ اور پنجاب میں گورننس قائم ہونے کی وجہ سے دہشت گردی نہیں‘ خیبر پختونخوا میں جو دہشت گردی اور بدامنی ہے اس کے پیچھے سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے‘یہاںگورننس نام کی چیز نہیں‘فتنہ الخوارج کے سہولت کار خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر یں یا نتیجے کے لئے تیار رہیں ‘عوام کے جان و مال کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات جاری رہیں گے‘دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تونیشنل ایکشن پلان کے 14 نکات پر عمل کرنا ہوگا ۔ جمعہ کو کور ہیڈ کوارٹرز پشاور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھاکہ ہم ایک ریاستی ادارے کے طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی سیاست کے لیے استعمال نہ کریں‘ ہم ریاست اور عوام کے لیے جان دیتے ہیں ہم کسی کی سیاست کی جنگ نہیں لڑتے۔فوجی ترجمان کا کہناتھاکہ جو شخص یا گروہ اپنی مجبوری یا کسی فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کررہا ہے اس کے پاس 3 راستے ہیں۔ اول یہ کہ وہ خود ان خارجیوں کو ریاست کے حوالے کردے یا پھر وہ دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں میں ریاست کے اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائے ‘ تیسرا راستہ بتاتے ہوئے انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ دونوں کام نہیں کرنے تو پھر خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست پاکستان کے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہوجائیں۔انہوں نے مزیدکہاکہ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئےمگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبر پختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 بنیادی وجوہات بھی بیان کیں جن میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا،دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا،بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا،افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی اور مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ شامل ہے ۔دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے گٹھ جوڑکو مکمل مقامی اور سیاسی پشت پناہی حاصل ہے۔امریکاکے پاس تمام تر وسائل ہونے کے باوجود وہاں غیر قانونی تارکین وطن کا مسئلہ ہےمگر وہاں کوئی نہیں کہتا کہ اسمگلنگ کے پیچھے وردی ہے۔ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ کیا آپ کو یہ آواز نہیں آتی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں، کیا ہم اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہے ہیں؟ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے ؟ اگر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو بدر کے میدان کو یاد کریں کہ سرورکونین ﷺنے اس دن کیوں بات چیت نہیں کرلی؟ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاکہ آپ کے عمائدین نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم بیانیہ بنائیں گے مگر گمراہ کن بیانیہ بنایا جاتا ہے۔جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ناسوروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، تو ان عناصر کی پشت پناہی کے لیے مختلف سیاسی اور مقامی سطح سے آوازیں آتی ہیں فیصلہ تو آپ نے کیا تھا کہ اس کو ختم کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔