• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گنڈاپور کا استعفیٰ گورنر تک نہیں پہنچا، نامزدگی کافی نہیں، وزیراعلیٰ کو ووٹ لینا پڑتا ہے

انصار عباسی

اسلام آباد:…خیبرپختونخوا کے نئے وزیرِاعلیٰ کے طور پر عمران خان کی جانب سےسُہیل آفریدی کی نامزدگی کے عملی شکل اختیار کرنے پر سنگین شکوک پیدا ہو گئے ہیں۔ ایک اعلیٰ وفاقی عہدیدار نے عندیہ دیا ہے کہ کپ اور لب کے درمیان پھسلن یعنی فیصلے پر عملدرآمد سے پہلے ہی رکاوٹ آ سکتی ہے۔اس عہدیدار نے جو اپنے منصب کے باعث اس معاملے سے براہِ راست متعلق ہیں کہا کہ جنہیں لگتا ہے کہ آفریدی شاید وزیراعلیٰ نہ بن سکیں وہ بالآخر درست ثابت ہو سکتے ہیں۔ اُن کے مطابق ’’نامزدگیوں کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے، اصل اہمیت وزیراعلیٰ کے انتخاب میں ڈالے گئے ووٹوں کی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’فی الحال وزیراعلیٰ گنداپور کا استعفیٰ بھی گورنر کو نہیں پہنچا۔‘‘عہدیدار نے متنبہ کیا کہ ’’ریاست کے مفاد سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں،‘‘ اور اگر کسی نے دانستہ طور پر ریاست کو کمزور کرنے کی کوشش کی، تو ’’ایسی کوشش کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ کہا جاتا ہے کہ  سُہیل آفریدی مفرور پی ٹی آئی رہنما  مراد سعید  کی پسند ہیں جنہوں نے ان کی سیاسی تربیت   کی  ۔ آفریدی اپنےجارحانہ مزاج کے لیے مشہور ہیں اور خان نے انہیں اس لیے منتخب کیا کہ وہ خیبرپختونخوا میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے اپنے انداز میں نمٹیں نہ کہ وفاق یا فوج کی جانب سے وضع کردہ انسدادِ دہشت گردی حکمتِ عملی کے مطابق۔تاہم اس فیصلے نے سیاسی اور سرکاری حلقوں میں تشویش پیدا کر دی ہے کیونکہ یہ عمران خان کے عسکری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کو مزید بڑھانے کا اشارہ سمجھا جا رہا ہے۔ بعض وفاقی وزرا نے آفریدی کی نامزدگی اور عمران خان کے ارادے پر کھلے عام تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایک وزیر کا کہنا تھا کہ خان کا نیا انتخاب وزیراعلیٰ بننے کے اہل ہی نہیں۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ حکمتِ عملی نہ صرف خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت کو خطرے میں ڈال سکتی ہے بلکہ پارٹی  کی مجموعی  مشکلات کو مزید بڑھا سکتی ہے۔ان خدشات کو مزید تقویت  ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کی    سخت بیانئے والی پریس کانفرنس سے ملی، جس میں انہوں نے خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کو بالواسطہ طور پر سیاسی عناصر سے جوڑا۔ اگرچہ انہوں نے عمران خان یا پی ٹی آئی کا نام نہیں لیا، مگر ان کا کہنا تھا کہ ’’سیاسی و مجرمانہ گٹھ جوڑ‘‘ نے صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ کیا ہے۔ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا:> ’’اگر ہر مسئلہ مذاکرات سے حل ہو سکتا تو بدر اور احد کی  جنگیں کیوں لڑی گئی تھیں؟‘‘ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں کو ایک ’’منصوبہ بند سازش‘‘ کے تحت جگہ دی گئی، جبکہ خیبرپختونخوا میں گورننس اور عوامی بہبود کو جان بوجھ کر متاثر کیا گیا۔ انہوں نے افغان مہاجرین کی واپسی کے خلاف چلنے والے سیاسی بیانیوں پر بھی تنقید کی۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’’گمراہ کن دعوے اور سیاسی موقع پرستی‘‘ نے قومی سلامتی کے اُن فیصلوں کو دھندلا دیا ہے جو کبھی تمام جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے کیے جاتے تھے اور اب ’’غلط معلومات‘‘ کے ذریعے عوام کو الجھانے اور انسدادِ دہشت گردی کے آپریشنز کو کمزور کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔سیاسی مبصرین کے مطابق سُہیل آفریدی کی نامزدگی  اور فوج کی سخت پیغام رسانی خیبرپختونخوا میں بڑھتے ہوئے سیاسی و سیکورٹی تصادم کی علامت ہیں۔ صوبے میں پہلے ہی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے اور خدشہ ہے کہ عمران خان کا یہ سیاسی قدم  جس کا مقصد کنٹرول مضبوط کرنا ہے الٹا اُن کی جماعت کے لیے خطرات میں اضافہ کر سکتا ہے۔ 

اہم خبریں سے مزید