• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آٹھ نکاتی فیصلہ — کمیونسٹ پارٹی کی خود احتسابی اور بہتر طرزِ حکمرانی کی بنیاد

تحریر… مسٹر ژاؤ شیرین

( چینی قونصل جنرل لاہور)

دنیا بھر میں ریاستی اور سماجی نظم و نسق کے حوالے سے اگر کسی پالیسی نے گہرے اور دیرپا اثرات مرتب کیے ہیں تو ان میں چین کا ’’آٹھ نکاتی فیصلہ‘‘ نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ یہ فیصلہ 4 دسمبر 2012ء کو چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 18ویں قومی کانگریس کے بعد، پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری شی جن پنگ کی زیرِ صدارت سیاسی بیورو کے اجلاس میں پیش کیا گیا۔ یہ محض چھ سو سے کچھ زائد الفاظ پر مشتمل ایک مختصر مگر جامع ہدایت نامہ تھا، جس نے پارٹی نظم و ضبط کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ اس فیصلے میں آٹھ پہلوؤں پر لازمی ہدایات دی گئیں جن میں تحقیق اور تجزیے کے نظام میں بہتری، اجلاسوں میں غیر ضروری طوالت کا خاتمہ، کاغذی کارروائی میں کمی، بیرونی دوروں کے نظم و ضوابط، تحفظاتی پروٹوکولز کی درستی، میڈیا کوریج میں سادگی، اشاعتی مواد پر سخت کنٹرول اور کفایت شعاری کو فروغ دینا شامل ہیں۔ یہ فیصلہ پارٹی نظم و ضبط کو مضبوط بنانے اور عوام کے ساتھ رابطے کو مستحکم کرنے کے لیے فولادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔وقت کے ساتھ یہ فیصلہ صرف اعلیٰ قیادت تک محدود نہیں رہا بلکہ اسے تمام پارٹی کارکنان اور سرکاری عہدیداران کے لیے ایک مکمل اصلاحی مہم کی شکل دے دی گئی۔ ایک دہائی سے زائد عرصے پر محیط اس عمل نے چین کے نظامِ حکومت میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں اور اسے ایک ’’گیم چینجر‘‘ کے طور پر سراہا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی اپنی سو سالہ جدوجہد میں چین کی نجات دہندہ، عوام کی سب سے بڑی پشت پناہ اور ’’چینی خصوصیات کے ساتھ سوشلسٹ نظام‘‘ کی قیادت بن چکی ہے۔ اس کی قیادت قوم اور تاریخ دونوں کی اجتماعی خواہش کا مظہر ہے۔ صدر شی جن پنگ نے واضح کیا ہے کہ ’’چین کے معاملات کو بہتر طریقے سے چلانے کی کنجی کمیونسٹ پارٹی کے مضبوط نظم میں ہے، اور پارٹی کو خود اپنی اصلاح خود کرنی ہوگی۔‘‘ ان کے مطابق ’’طرزِ عمل کے مسائل معمولی نہیں۔ اگر غلط رویّوں کو جڑ سے ختم نہ کیا گیا تو یہ عوام اور پارٹی کے درمیان ایک ایسی غیر مرئی دیوار بن جائیں گے جو پارٹی کی بنیاد، خونِ زندگی اور طاقت کو کمزور کر دے گی۔‘‘ آٹھ نکاتی فیصلہ اسی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ جب قیادت عزم کے ساتھ واضح اہداف اور سخت عملدرآمد کے اصول اپنائے تو ایک قوم کے سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی ڈھانچے میں ہمہ گیر اصلاح ممکن ہو جاتی ہے۔ یہی اصول چین کی جدیدیت، غربت کے خاتمے اور شفاف حکمرانی کے سفر کی بنیاد بنے۔پارٹی کارکنان اور عوامی عہدیداران کے طرزِ عمل کی بہتری ایک مسلسل عمل ہے جس کی کوئی آخری منزل نہیں۔ اسی سلسلے میں رواں برس مرکزی کمیٹی نے پارٹی میں آٹھ نکاتی فیصلے کی مکمل عملداری کے لیے ایک جامع تعلیمی پروگرام کا آغاز کیا ہے۔ اس مہم کا مقصد نظم و ضبط، احتساب اور عوامی وابستگی کے جذبے کو مزید گہرا کرنا ہے تاکہ پارٹی کی عوام سے وابستگی مزید مضبوط ہو۔ یہ کوششیں چین کی 14ویں پانچ سالہ منصوبہ بندی کے اہداف کے لیے بھی کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں تاکہ اصلاحات، ترقی اور عالمی شفافیت کے سفر کو تیز تر کیا جا سکے۔آٹھ نکاتی فیصلہ صرف چین کی داخلی پالیسی نہیں بلکہ اس کی روح چین۔پاکستان تعلقات میں بھی جھلکتی ہے۔ چین۔پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) دونوں ممالک کے اشتراک کی علامت ہے چاہے وہ گوادر بندرگاہ کی تعمیر ہو، توانائی کے منصوبے ہوں، ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر ہو یا عوامی فلاح کے پروگرام — ہر مرحلے پر شفافیت، دیانت داری اور کارکردگی لازمی اصول قرار پائے۔ چینی انجینئرز اور ٹیمیں اسی فلسفے کے تحت کام کر رہی ہیں: پروجیکٹس کے معیار کی سخت نگرانی، فنڈز کے درست استعمال کی جانچ، اور ہر سرمایہ کاری کو پاکستانی عوام کی فلاح میں ڈھالنے کی کوشش۔ یہ فیصلہ کسی نعرے کا نام نہیں بلکہ عملی عزم ہے — خود احتسابی، شفافیت اور اجتماعی ترقی کے سفر کا۔چین اپنی پاکستانی برادر قوم کے ساتھ اپنی حکمرانی کے تجربات، خود اصلاحی مہمات اور انسدادِ بدعنوانی کے ماڈلز بانٹنے کو تیار ہے۔ سی پیک کے دوسرے مرحلے میں چین اور پاکستان مل کر ایک شفاف، دیانت دار اور بدعنوانی سے پاک بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ تعمیر کریں گے تاکہ دونوں ممالک مل کر مشترکہ مستقبل کی کمیونٹی کا نیا باب رقم کریں۔

ملک بھر سے سے مزید